امریکی سامراج معاشی پابندیوں‘سوشل میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈہ اور اپنے زرخرید ’دانشوروں‘کے ذریعے کس طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں بے چینی اوربدامنی پیدا کرتا ہے اسکی تازہ ترین مثال چھوٹاسا ملک کیوبا ہے جہاں متعدد شہروں میںچند ہفتوں سے لوگ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ باسٹھ سال پہلے کیوبا میںکمیونسٹ انقلا ب آیا تھا ۔ اسکے بعد سے اب تک یہ تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ امریکہ کے جنوب میں کیریبئین جزائر ہیں، ان میں سب سے بڑا جزیرہ کیوبا ہے، جو امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل سے تقریبا ڈیڑھ سو کلو میٹر دور واقع ہے۔اسکی آبادی ایک کروڑ تیرہ لاکھ ہے۔ساٹھ فیصد سے زیادہ سفید فام آبادی ہے‘ چھبیس فیصد میستیزو(لاطینی اور قدیم مقامی باشندوںکا امتزاج) ہیں اور تقریبا دس فیصد سیاہ فام افریقی النسل باشندے ہیں۔ جب 1959 میں کیوبا میں فیڈل کاسٹرو کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب آیا تھا تودائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے امریکی ریاست فلوریڈا منتقل ہوگئی تھی۔ اسوقت امریکہ میں مقیم کیوبا کے خود ساختہ جلاوطن افراد کی تعداد تقریبا بارہ لاکھ ہے ،جن کی غالب اکثریت میامی شہرمیں رہتی ہے۔گزشتہ صدی کے اوائل میںامریکہ کا کیوبا پر قبضہ تھا۔براہ راست قبضہ ختم ہونے کے بعد وہاں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتیں بنتی رہیں۔ کاسٹرو کے انقلاب کے بعد سے امریکہ کے کیوبا سے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ صدر کنیڈی نے اس چھوٹے سے ملک پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ سابق صدر اوباما نے کیوباپر سے پابندیاں نرم کردی تھیں اور ہوانا کا دورہ بھی کیا تھا ۔ صدر اوباما بتدریج کیوبا کو امریکہ کے قریب لانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس حکمت ِعملی کو تبدیل کردیا اور کیوبا پر سخت معاشی پابندیاں لگا دیں۔ان پابندیوں کے تحت امریکی حکومت نے اڑھائی سو ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے کیوباکی معاشی ناکہ بندی ہوگئی۔ امریکہ جب کسی ملک میں حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے تواس ملک کا معاشی گلا گھونٹنے کی کوشش کرتا ہے جیسے ایران اور وینزویلا کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت نے اپنے بجٹ میں دو کروڑ ڈالر کیوبامیں ’جمہوریت کے فروغ‘ کے نام پر مختص کیے ہوئے ہیں جس کا دوسرا مطلب ہے ‘کیوبا میں حکومت کی تبدیلی‘۔ امریکی حکومت خفیہ فنڈزکیوبا کے لبرل دانشوروں‘ آرٹسٹوں اورسیاسی کارکنوں میں تقسیم کرتی ہے تاکہ وہ حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کریں اور احتجاجی مظاہرے منظم کریں۔ امریکہ نے کیوبا کو ‘دہشت گردی کو فروغ دینے والی ریاست‘قرار دیا ہوا ہے، جس کے باعث اسکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے۔ امید تھی کہ ڈیموکریٹ صدر بائیڈن کیوبا پر صدر ٹرمپ کی لگائی گئی ظالمانہ پابندیاں ختم کردیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ کے کیوبا کے جزیرہ میں طویل مدتی مفادات ہیں۔ اسکے ساحلوں کے قریب سے امریکہ کی کھربوں ڈالر مالیت کی تجارت ہوتی ہے۔ امریکہ اپنی سپلائی چین کو محفوظ بنانے کیلیے ہوانا میں ایک پٹھو حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس ملک کی سستی لیبر کو استعمال کرکے اپنی صنعتوںکو فروغ دے سکے۔ کیوبا کی ارزاں لیبردستیاب ہونے سے امریکی صنعتکاروں‘ سرمایہ کاروں کا چین پر انحصار کم ہوجائے گا ۔اُنہیںاپنے ملک کے قریب سرمایہ کاری کیلیے ایک متبادل محفوظ جگہ مل جائے گی۔ چونکہ کیوبا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے یہ جتنا بھی ترقی کرجائے چین کی طرح امریکہ کے مقابل نہیں آسکتا۔ امریکہ میں مقیم کیوبا کے تارکین وطن پابندیوں کے باعث اب کیوبا میںرہنے والے اپنے رشتے داروں کو رقوم نہیں بھیج سکتے۔اس وجہ سے کیوبا کو زرِمبادلہ کی قلت کا سامنا ہے۔ وہ دنیا سے ضروری اشیاء درآمد نہیں کرسکتا۔کیوبا کا نہ صرف امریکہ سے تجارت اور کاروبار متاثر ہوا ہے بلکہ دُنیا کے دیگر ملکوں سے بھی۔مثلاً کیوبا نوّے فیصد ادویات خود تیار کرتا تھا۔ اب وہ ناکہ بندی کے باعث ان دواؤں کی تیاری کیلیے خام مال درآمد نہیں کرسکتا۔ ملک میں دواؤں کی شدید قلّت ہوگئی ہے۔ اسپرین کی گولی تک دستیاب نہیں ۔ کیوبانے کورونا وبا کو پہلے سال کامیابی سے کنٹرول کیا تھا۔ایران کے اشتراک سے اپنی ویکسین تیار کرلی تھی لیکن اب کورونا وبا تیز ہوگئی ہے کیونکہ ویکسین بنانے کا عمل خام مال نہ ہونے کی وجہ سے سست رفتاری کا شکار ہوگیا ہے۔دواؤں کی قلت سے لوگ حکومت سے ناراض ہیں‘ احتجاج کررہے ہیں۔اسی طرح ملک میں کھانے پینے کی اشیاء اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں جیسے صابن‘ شیمپو وغیرہ کی بھی شدید کمی ہے دُکانیں اور بازار خالی ہیں۔ چند دن پہلے کیوبا کی حکومت نے بیرون ممالک سے آنے والوں کو اجازت دی ہے کہ وہ جتنی مقدار میںچاہیں دوائیں‘ کھانے کا سامان اور روزمرہ استعمال کی اشیاء اپنے ساتھ لا سکتے ہیں۔ ان پر کوئی درآمدی ٹیکس نہیں لگے گا تاکہ ان چیزوں کی کمی دُور ہوجائے۔ کورونا وبا نے کیوبا میں سیاحت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ اسکی آمدن کا بڑا ذریعہ تھی۔ اس برس گنّے کی فصل بھی خراب ہوئی ہے۔ چینی کی برآمد سے یہ زرمبادلہ کماتا تھا۔ یوں چاروں طرف سے نامساعد حالات نے اِس ملک کو ایک ساتھ گھیر لیا۔اس صورتحال کا امریکی حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ فلوریڈا میں بیٹھے امریکہ کے حامی تارکین وطن نے سماجی میڈیا پر کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کا محاذ کھول دیا۔ امریکی میڈیا نے اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ بنا کر زوردار پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ فی الوقت‘ کیوبا میں سیاسی تناؤ ہے۔ آثار ہیں کہ حکومت مخالف طبقہ کا احتجاج جاری رہے گا۔ ہوانا میں حکومت میں تبدیلی کے مقصد میں امریکہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں اسکا انحصار کسی حد تک روس اور چین پر ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں کیوبا کی حکومت کو کتنی مدد فراہم کرتے ہیں۔