پھول خوشبو کو ہوا میں ذرا گہرا لکھنا سات رنگوں میں کبھی اس کا سراپا لکھنا تتلیاں رنگ لئے پھرتی ہیں چاروں جانب کتنا مشکل ہے بہاروں کا قصیدہ لکھنا چمکدار دھوپ نکلنا شروع ہو گئی‘سمجھو کہ اب بسنت رتیں آنے کو ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان دنوں گلاب کا پھول کھلنے لگا ہے اور ہماری آنکھوں میں سرخ رنگ کا عکس بھی تو آتا ہے۔اگرچہ آج مجھے نہایت اہم معاملہ کو اٹھانا ہے مگر ایک تذکرہ ذرا سا ایک ایسے شخص کا کہ جو مجھے ہمیشہ اس وقت یاد آتا ہے جب میرے گھر کے قریب مرغزار کے خدیجتہ الکبریٰ پارک کے اردگرد گلاب کے پھول کھلتے ہیں۔ وہ تھے ملک حنیف جو ان پھولوں پر نظر رکھے کہ کوئی بچہ ان پھولوں کو نہ توڑے۔ ایک دن انہوں نے ایک شخص کو پھول توڑتے ہوئے روکا اور سخت لہجہ اختیار کیا۔ اس شخص نے روہانہ ہو کر کہا کہ اس کی بچی بیمار ہے اور وہ پھول دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے پھر ملک حنیف صاحب کا معمول ہو گیا کہ کچھ پھول توڑ کر اس شخص کے گھر جا کر دے آتے۔انسان بہت قیمتی ہے ایسے ہی شکیب جلالی یاد آ گیا: پھر سے شاید وہ مجھے پھولوں کا تحفہ بھیج دے تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر اس پھول سے تو سارا نظام فطرت ہے جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے۔اب میں آتا ہوں اس اہم بات کی طرف ۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ میرے پیارے وطن کو بچھو اور سنپولئے چمٹے ہوئے ہیں اب آگے انہوں نے بچے بھی دے رکھے ہیں ذکر کرنا چاہتا ہوں میں ایک بے پناہ شخص کا کہ اس سے پیشتر بھی میں نے ایک کالم اس شخص پر لکھا تھا کہ میں نے صرف اس کا کام دیکھا پھر وہ آ کر مجھے ملا تو اس کے دیدار ہوئے میں اب بھی کہتا ہوں کہ بس یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی میرا دعویٰ ہے کہ ایسے دس لوگ لاہور کو مل جائیں تو کافی ہیں ۔ یہ ہیں محمد شہزاد چیمہ جو کہ مرغزار کالونی کے صدر ہیں میں اس شخص کی گواہی دیتا ہوں کہ اس مرد قلندر نے نئی سڑکیں ہی نہیں بنوائیں بہت سے کام کئے سبزہ ہی سبزہ کر دیا چوک چوراہے سجائے قانون کی پاسداری کی اور کرائی نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے دوست بھی ناراض ہو گئے کہ وہ زہر کو قند نہ کہہ سکا اس کی دو سال کی کارکردگی دیکھتے ہوئے سب نے کوشش کرکے کواپریٹو سے اس آئین میں ترمیم کروا لی کہ یہاں کے لوگ انہیں تیسری مرتبہ بھی صدر بنائے جا رہے ہیں ہم تو چیمہ صاحب کو فیض کا شعر سناتے ہیں: گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے واقعتاً انہوں نے وعدہ کوئی نہیں کیا اور کام سارے ہی ہو گئے۔مجھے محمد شہزاد چیمہ کی یہ بات اچھی لگی کہ وہ ہر کام کرنے کے بعد پارکوں میں آ کر وہاں کے سیر کرتے بوڑھوں سے مل کر حالات پوچھتے ہیں تو وہ اس کے کاموں کو سراہاتے ہیں چیمہ صاحب کہنے لگے کہ ان بزرگوں کے ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ ساری تھکن دور کر دیتی ہے اور حوصلہ دیتی ہے۔ میں کوئی خیالی باتیں نہیں لکھ رہا اب بھی کالونی کے ساتھ اس کی 80فٹ روڈ بن رہی ہے کالونی کے اندرونی کاموں سے فارغ ہو کر انہوں نے سڑک کے دونوں اطراف میں ٹف ٹائل لگوائی ہے ساری تجاوزات ختم کر دی ہیں وہاں پارکنگ بنائی ہے ان تجاوزات کا ختم ہونا تصور میں نہیں آتا تھا مگر جب کوئی کام کرنے پر آئے تو کام ہو جاتا ہے شاندار انٹرگیٹ کو ختم نبوت گیٹ کا نام دیا گیا ان کی آقاﷺ سے محبت دیدنی ہے وہ سیرت کانفرنس بھی کروا چکے ہیں مساجد کے اماموں کی تنخواہیں اچھی کیں سکیورٹی بہت بہتر کی کالونی کا اپنا ہسپتال بن رہا ہے کیا کیا گنوائوں آپ کو جن لوگوں کا ایسا پیارا شخص انتخاب ہے وہ بھی کم نہیں ہیں ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے فلاح مرغزار تنظیم میں ملک محمد شفیق‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ غلام عباس جلوی ‘ میاں محمد نعیم‘ اورنگزیب اور ملک مقبول ہیں اور باعث تحریر بھی وہ شاندار پروگرام تھا کہ جس میں سعید ملک اور ندیم خاں صاحب نے مل کر اہل مرغزار کو خدیجتہ الکبریٰ پارک میں اکٹھا کیا تھا۔اس اکٹھ میں سب سے اہم باتیں ملک شفیق صاحب نے کیں۔وہ جماعت اسلامی کے رہنما ہیں اور دبنگ آدمی ہیں انہوں نے مرغزار کے رہائشیوں سے کہا کہ وہ لوگ جن سے ہم جان چھڑائی تھی وہ پھر آنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ کیا کوئی کسر باقی رہ گئی ہے پتہ یہ چلا کہ محمد شہزاد چیمہ سے پہلے کالونی کی حالت انتہائی ابتر تھی پہلی انتظامیہ قبرستان اور مسجد کی جگہ تک پہنچ گئی اور کالونی کے وسائل کو بے دریغ استعمال کیا محمد شہزاد چیمہ نے کہا کہ ان پر کئی کیسز ہیں مگر میں نے ان کے ساتھ مقدمے بازی کرنے کی بجائے کام پر توجہ دی اور کالونی کا نقشہ بدل دیا۔میں نے چیمہ صاحب سے پوچھا کہ اسی فٹ روڈ پر کروڑوں لگ رہے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے کام ہیں چیمہ صاحب نے ہنس کر کہا یہ پیسہ کالونی کا ہے میرے باپ کا نہیں۔وہی پیسہ جو پہلے والے کھاتے تھے میں نے لگا دیا یہ رہائشیوں کی امانت ہے یہ اصل ایمانداری وہ نہیں کہ میاں صاحب کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں! میرے پیارے قارئین میں نے ایک بامقصد تحریر لکھنے میں عافیت سمجھی کہ روز ہی ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو پشاور جیسے سانحہ کے بعد بھی بلیم گیم کر رہے ہیں پھر مجھے تذکرہ کرنا پڑتا ہے کہ کوئی تو ملک کا سوچے۔ اب دیکھیے کہ یہاں بھی جماعت اسلامی نے محمد شہزاد چیمہ کو اپنا امیدوار قرار دے دیا ہے۔کہ ہر طرح کی مدد کریں گے یہ لوگ جو ہمیں کھا گئے اور اگر ایماندار ہوتے تو ہماری جان بھی لے لیتے ان کے لئے میں کیا کہوں: دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا