80ء کی دہائی تھی ، لاہور ماڈل ٹائون کی ہی ایک جگہ تھی،کھلی سی گرائونڈ تھی کسی گھر کی ۔ ایک درویش مخلوق خدا کو لیکچر دیا کرتے تھے۔ایک دن ایک دوست مجھے لے گیا ،لیکچر سنا، بہت سے سرکاری افسر بھی تھے اور کچھ اداروں کے باریش حاضرین بھی۔ آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوا ۔ کچھ پس و پیش کے بعد میں نے بھی ہاتھ بلند کردیا سوال پوچھنے کے لیے ۔ اُن دنوں میں جو کچھ پڑھ رہا تھااور جس کو بھی پڑھ رہا تھا وہ تصوف پر مبنی تھا۔ کچھ ایسی اصطلاحات پڑھتے پڑھتے سامنے آئیں جن پر ذہن اُلجھ سا جاتا ۔ میرا سوال ان ہی کے بارے میں تھا۔ ’’یہ فنا فی اللہ ۔۔ فنا فی الرسول اور فنا فی ا لشیخ کا کیا مطلب ہے؟ پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔ اس بڑے نام والے مشہور صوفی نے میری بات کا واضح جواب دینے سے انکار کردیا۔ ’’ہم ان اصطلاحات کو مانتے ہی نہیں‘‘ سارا مجمع ہمہ تن گوش تھا۔ ’’جی آپ نہیں بھی مانتے پھر بھی ان پر کچھ رہنمائی فرمائیے ‘‘۔ مگر نہ جانے کیا وجہ تھی؟ اُن کا جواب انکار میں تھا۔ مجھے کہا آپ رُک جائیں اور مل کر جائیے گا۔ خلوت میں ملاقات ہوئی تو لب و لہجہ جلوت سے بہت مختلف تھا۔ مجھے کہنے لگے ’’آپ جو کچھ پوچھ رہے تھے ، اس کا جواب دینے سے ابہام پیدا ہوسکتا تھا۔ آئیے اب اس پر تفصیلی بات کرلیتے ہیں کہ ہر بات ہر ایک کے لیے نہیں ہوتی۔ ‘‘ اُن کے ساتھ بعد میں کافی نشستیںرہیں۔ اس دوران ایسے لوگوں سے بھی روابط رہے جو نجوم، جفر اور دست شناس میں خاصی ریاضت سے کچھ نہ کچھ بتاہی دیتے تھے۔ اُن دنوں مشرق اخبار کے میگزین میں ایک صاحب علامہ کے آگے کچھ عجیب سا لاحقہ لگا کر لکھا کرتے تھے۔ چلئے فرض کرتے ہیں اُن کا نام ’’علامہ سامدرک جی‘‘ تھا ۔وہ دست شناسی کے لیے تمام ٹرمنالوجی ہندوئوں کی استعمال کرتے تھے۔ ودیاریکھا، جنم کنڈلی، راہو اور کیتو وغیرہ۔ اشتیاق پیدا ہوگیا کہ ان سے ملاقات کی جائے۔ مشرق اخبار کے دفتر سے اُن کا پتہ پوچھا اور لٹن روڈ پر ایک بوسیدہ ٹی سٹال پر جا پہنچا۔ ٹی سٹال والے نے پوچھنے پر چائے کی کیتلی سے نظر ہٹائے بغیر بائیں جانب انتہائی دردناک سیڑھیوں کی طرف اشارہ کردیا۔ آتش جوان تھا اور شوق بے پناہ۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر فرسٹ فلور ٹائپ کی جگہ پر ایک دفتر نما کمرے میں پہنچ گئے۔ پرانے صوفے ، پرانے فیشن کی گرد آلود میز اور شاید تقسیم کے وقت کی کرسیاں بھی تھیں۔ ان کے پیچھے غالباً علامہ صاحب کے آرام کرنے کا کمرہ تھا۔ سارا آفس چھان مارا۔ بالکل کوئی نہ تھا،سوائے ایک صاحب کے جو ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ اشوک کمار سٹائل کا پینٹ کوٹ پہنے وہ کلین شیو حضرت سیاہ چشمہ لگائے ہوئے تھے۔ میری علامہ صاحب کی ڈھونڈ سے بے نیاز۔ مجھے پتہ نہیں کیوں یہ یقین تھا کہ یہ علامہ صاحب نہیں ہوسکتے۔ میں علامہ صاحب کو ڈھونڈ بھی رہا تھا اور اُن سے کچھ پوچھ بھی نہیں رہا تھا۔ تنگ آکر اُنہیں مخاطب کرنا پڑا۔’’جی علامہ سامدرک کہاں ہیں؟‘‘ بڑی شان بے نیازی سے کہنے لگے ’’یہیں کہیں ہوگا‘‘۔ اُن کے اس جملے نے علامہ صاحب کا طاری مجھ پر Spell توڑ دیا۔ علامہ صاحب تو نہ آئے مگر اُن صاحب کے لیکچر نے حیران کردیا۔ مخفی علوم پر ایک بھاری بھرکم لیکچر۔ نجوم، زائچہ ، دست شناسی اور جفر کیا ہوتے ہیں۔ ان کی سائنس اور کیمسٹری کیا ہے؟ یہ علوم انسانوں کی تعبیروتشریح کس طرح کرتے ہیں۔ انسان کی پیدائش کا وقت اور اس کا نام اُس پر کیا اثرات ڈالتے ہیں۔ حروفِ تہجی اور اُن کے اعداد کس طرح سوال اور جواب کا عقدہ کھولتے ہیں۔ میں مبہوت اُن کو سن رہا تھا۔ اُن کے نام کا پہلا حصہ بھول گیا، آخر میں کاظمی آتا تھا۔ کہنے لگے ’’مگر ان سب سے گریز کرنا چاہیے۔ راضی برضا رہنا چاہیے۔ جب بھی کوئی مخفی علوم کی دنیا میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے، اسے مخفی قوتیں زیر زبر کردیتی ہیں۔ اس کے اپنے معاملات سیدھی راہ سے ٹیڑھے میڑھے راستوں کی جانب چل نکلتے ہیں۔ زندہ مثال تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔ فاقے سے ہوں۔ بجلی کی سی سرعت سے نیچے ٹی سٹال پر پہنچا۔ جو کچھ اس کے پاس تھا سب کا آرڈر کردیا۔ وہ چائے پی رہے تھے اور میں اُن کا دیکھ بھی رہا تھا اور سوچ بھی ۔ اُن سے پھر طویل نشستیں رہیں مگر اس نصیحت کے ساتھ کہ یہ سب ایسا ہے اور ایسے ہوتا ہے۔ پھر 2000ء کا سال آگیا اور اتفاقیہ ملاقات کسی سے ہوگئی۔ اُن کی دنیا ، دنیاداروں کی دنیا سے قطعاً مختلف تھی۔ وہ علت اور معمول کی دنیا نہیں تھی۔ وہاں دو اور دو چار کی بجائے پانچ تھے۔ ابتدا میں جب بھی اُن سے ملنے پر اصرار کیا، اُن کی جانب سے گریز ہی رہا۔ میڈیا کی ایک اہم شخصیت نے مجھے جب چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان کو مجھ سے ملوایا تو وہ شام کو میرے گھر آتا۔ کرنٹ افیئر اور پاکستان افیئرزCSSکے لئے اور رات ڈھلے واپس جاتا ۔ ایک دن اس کے سامنے اس شخصیت کا فون آگیا۔ ارسلان نے بہ اصرار مجھ سے اُن کا نمبر لے لیا۔ مجھے بالکل نہیں پتہ تھا کہ یہ افتخار چوہدری صاحب کا بیٹا ہے۔ اُس نے یہ نمبر چوہدری صاحب کو دے دیا۔ چوہدری صاحب اور اُس ہستی کے مابین کیا معاملہ رہا یہ کہانی پھر سے ۔ مگر اتنا کہ معزولی سے بحالی تک وہ چوہدری صاحب کے ساتھ تھے مگر پس منظر میں ۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر جو ایک حادثے میں اب شہید ہو چکے ہیں وہ اس شخصیت کے پاس اکثر نظرآتے۔وہ افسر مشرف دور میں لاہور کی ایک طاقتور جناتی پوسٹنگ والے کسی صاحب کو اپنے مزاج کے ہاتھوں ناراض، خاصا ناراض کر بیٹھے۔ لبرٹی چوک میں ایک کالے شیشوں والی گاڑی روک کر ۔ وہ معاملہ بھی دعا ہی سے حل ہوا۔ وہ علت اور معمول کی باتوں پر مسکراتے ہیں۔وہ نجوم، پامسٹری اور جفر کر فارمولوں کی بات سن کر کوئی اور بات شروع کر دیتے ہیں۔ اُ ن سے ملاقات کو اکیس سال ہوگئے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی ڈھونڈ، تانگ اور تلاش ترک ہوگئی ہے۔ کسی اللہ والے کا کہنا ہے کہ سارے واقعات کا انحصار محنت پر نہیں۔سب کچھ عقل بھی نہیں۔ عقل اور چیز ہے ،اللہ کی مہربانی اور چیز۔ بابا جی واصف صاحب کہتے ہیں جہاں عقل کام نہیں کرتی وہاں نصیب کام آجاتا ہے۔ جن کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ کہتے ہیں کہ دعا سے تقدیر تو بدل جاتی ہے مگر دعا کی توفیق اور مانگنے کا خیال کہاں سے آتا ہے یہ قابل غور بات ہے۔ خرد کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے عمر تمام ہوجاتی ہے ،بات سمجھ میں نہیں آتی۔ باقی پھر کبھی ! نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے