معزز قارئین!۔پرسوں(10رمضان اُلمبارک، 16 مئی کو ) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں ( خواتین و حضرات) نے اُم المومنین اوّل ، حضرت خدیجۃ اُلکبریٰ سلام اللہ علیہا کا یوم وِصال منایا۔ رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے شادی سے قبل حضرت خدیجۃ اُلکبریٰ سلام اللہ علیہا کی کئی ملکوںسے تجارت تھی ، اُنہیں اُن کے مال و دولت کی وجہ سے ’’ملائکتہ اُلعرب ‘‘کہا جاتا تھا ۔ تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ ملائکتہ اُلعرب ‘‘کے پاس اُحد ؔپہاڑ کے برابر سونا تھا اور اُس سے زیادہ چاندی ، جسے اُنہوں نے حضور پُر نورؐ کی خدمت میں پیش کردِیا تھا اور رحمتہ اُللعالمین ؐ نے اُس سونے اور چاندی کے بدلے لا تعداد غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرا کے اُن کی شادیاں کرادِی تھیں۔ اِس طرح عرب معاشرے کی تو، کایا ہی پلٹ گئی اور رسولِ اکرم ، پیغمبر انقلاب ؐ کا کردار ادا کرنے لگے ‘‘۔ اِس پر مدتوں بعد ’’ترانہ ٔ پاکستان ‘‘ کے خالق جناب حفیظ جالندھری مرحوم نے پیغمبر انقلابؐ کی شان بیان کرتے ہُوئے کہا کہ … سلام اُس ؐپر کہ ، جسؐ کے گھر میں ، چاندی تھی، نہ سونا تھا! سلام اُس ؐپر کہ ، ٹوٹا بوریا، جسؐ کا بچھونا تھا! خلیفۂ رسُولؐ اوّل حضرت اُبو بکر صدیق ؓ ۔ مدینہ کے عام مزدُور کی آمدن کے برابر تنخواہ لیتے تھے اور آپؓ نے وصِیّت کردی تھی کہ۔’’ مَیں نے خلیفہ کی حیثیت سے بیت اُلمال سے جو۔ 6ہزار درہم بطور تنخواہ وصول کئے تھے وہ میری جائیداد فروخت کر کے بیت اُلمال میں جمع کرادیئے جائیں‘ ٗ ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی اِس وصیت پر عمل کِیا گیا۔ خلیفۂ رسولؐ دوم حضرت عُمر بن الخطابؓ کو بھری مجلس میں اپنے لمبے کُرتے کے کپڑے کا حساب دینا پڑا۔ خلیفۂ رسولؐ سوم حضرت عثمان ؓ نے اپنے زیادہ تر وسائل عام انسانوں کے لئے وقف کر رکھے تھے اور خلیفۂ رسول ؐ چہارم حضرت علی ؑنے مُدّعی کی حیثیت سے ٗ اپنے خلاف ٗ ایک یہودی کے جھُوٹے مقدمے میں ٗ قاضی سے استثناؔ نہیں مانگا تھا اور جب آپ ؑ عدالت میں پیش ہُوئے تو قاضی نے بھی آپؑ کو کُرسی پیش نہیں کی تھی ۔ یہودی جھوٹا تھا ۔ اُس نے معافی مانگ لی اور وہ مسلمان ہوگیا تھا۔ اُس طرح کا کردار تو ہمارے کسی بھی حکمران کا نہیں رہا؟۔ معزز قارئین!۔ مصوّرِ پاکستان علّامہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو اپنی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوستوں سینئر / جونیئر وُکلاء میں بانٹ دیتے تھے۔ قائدِ اعظمؒ پاکستان کے واحد حکمران تھے کہ۔’’جنہوں نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔ اُن سے پہلے مِلّت اسلامیہ کے ایک اور لیڈر ، جمہوریہ تُرکیہ کے بانی’’اتاتُرک‘‘ غازی مصطفی کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا لیکن ’’عُلمائے سُو‘‘ نے اسلامی دُنیا کے اُن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر اپنے لئے دُنیااور آخرت میں رُسوائی کا سامان پیدا کر لِیاتھا ۔ قائداعظمؒ نے ’’ ایک فرد ،ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر پاکستان قائم کِیا تھااور ’’ نظریۂ پاکستان‘‘ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ ’’برصغیر میں ہندو بنیے (ساہوکار ) مسلمانوں کو لُوٹ رہے ہیں ‘‘ لیکن، قائداعظمؒ کے وصال کے بعد اُن کے پاکستان میں ’’ہندو بنیوں ‘‘کی جگہ ’’حاجی بلیک ‘‘ قسم کے بنیوں ؔنے لے لی تھی / ہے ۔ پوری دُنیا میں کرسمس کے موقع پر (مسلمانوں اور دوسرے غیر مسلموں کے تہواروں پر بھی) اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت سستی کردی جاتی ہیں اور کئی ملکوں میں تو دس ، دس ، پندرہ ، پندرہ سال بعد بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں بڑھتیں لیکن، ہمارے یہاں تو ، ہر حکمران کے دَور میں (خاص طور پر) ماہِ رمضان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بہت ہی زیادہ اضافہ کردِیا جاتا ہے۔ دِکھاوے کے لئے ’’رمضان بازار ‘‘ بھی سجائے جاتے ہیں لیکن، وہاں بھی اشیائے ضروریہ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں ۔ نہ جانے کِس آسمانی مخلوق سے ؟۔ ہمارے پاکستان میں تو، شاید اپنی آخرت سنوارنے اور خالق حقیقی کی خوشنودی کے لئے سحر و افطار کے لئے اشیائے خورونوش خریدنے والے روزہ داروں کا امتحان لِیا جاتا ہے ؟ ۔آج (18 مئی کو)12واں روزہ ہے، یہ بھی گزر جائے گا اور ماہِ رمضان کے اختتام پر عید اُلفطر ہوگی ۔ مصّور پاکستان حضرت علاّمہ اقبالؒ کے دَور میں بہت ہی زیادہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے مولویوں پر مشتمل ’’رؤیت ہلال کمیٹی ‘‘ تو نہیں تھی لیکن، اُنہوں نے اپنے دَور میں ’’ ہلال عید‘‘ کو دیکھ کر کہا تھا کہ … پیام ِعَیش و مُسرّت ، ہمیں سُناتا ہے! ہلالِ عید ، ہماری ہنسی ، اُڑاتا ہے ! معزز قارئین!۔ دراصل علاّمہ صاحبؒ کے اِس شعر کا پہلا مصرعہ ، آج کے بالائی طبقے کی خوشحالی اور عیش و مسرت کو ظاہر کرتا ہے اور دوسرا مصرعہ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کی بدحالی کا جن کے پاس اپنے اہل و عیال کے لئے عید کے کپڑے سلوانے کی استطاعت ہی نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ’’ ماہِ رمضان ، ہمارے گناہوں کو جلا کر نِیست و نابُود کردیتا ہے یا اِس مہینے میں تشنگی کی شدت بہت تکلیف دیتی ہے۔ یا اِس وجہ سے نام رکھنے کے وقت یہ مہینہ شدتِ گرما میں واقع ہوا تھا ۔ اِسی لئے اِس کا نام رمضان ؔ رکھا گیا۔ متحدہ ہندوستان میں شراب پر پابندی نہیں تھی۔ پاکستان میں بھی (کسی حد تک)کوئی پابندی نہیں ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمان اُستاد شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں ماہِ رمضانؔ میں اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی مصروفیات کو بیان کِیا ہے۔ اُستاد سالک ؔ کہتے ہیں کہ … دُکّانِ مَے فروش پر ، سالک ؔپڑا رہا! اچھا گزر گیا، رمضان ؔ بادہ خوار کا! …O… حضرت امیرؔ مینائی نے کہا تھا کہ … تیس دِن ، مَے پلائی ، ساقی نے! ایک روزہؔ مرا ، قضا نہ ہُوا! …O… حضرت داغ دہلوی نے کہا کہ … قسمت ہی میں ،زاہد کے ہیں ، دِن رات کے فاقے! کیا پیر مُغاں ، روزہ کُشائی ، نہیں دیتا؟ علاّمہ اقبالؒ ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ؔ کے بہت ہی مداح تھے ۔ اُن کی عظمت بیان کرتے ہُوئے علاّمہ صاحبؒ نے کہا تھا کہ … فکرِ انساں پر ، تیری ہستی سے یہ رَوشن ہُوا! ہے پَرِ مُرغِ تخیل کی، رَسائی تا کُجا! اگرچہ مرزا غالب ؔنے اپنے دَور کے مفلس مسلمانوں کا حال بیان کِیا تھا لیکن ، اُن کا یہ شعر پاکستان کے مفلوک اُلحال مسلمانوں کے معاشی حالات پر بھی صادق آتا ہے۔ فرمایا کہ … جِس پاس ،روزہ کھول کے ، کھانے کو کچھ نہ ہو؟ روزے کو وہ نہ کھائے تو ،لاچار کیا کرے ؟ علائو الدّین خلجی ، متحدہ ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا کہ جس نے ضروریات زندگی کی قیمتیں مقرر کی تھیں ۔ یہاں تک کہ روٹی کی قیمت بھی (اُس کے وزن کے مطابق ) مقرر کردِی تھی۔ اشیائے ضروریہ کی مقررہ قیمتوں سے زیادہ وصول کرنے والے تاجروں اور دکانداروں کو سخت سزائیں دِی جاتی تھیں۔ اُس کے بعد بھی بادشاہوں کے دَور میں ( خاص طور پر مُغل بادشاہوں کے دَور میں ) غریب ، غرباء کے لئے ہر شہر اور گائوں میں ، سرکاری خرچ پرکھچڑ ی کی دیگیں پکائی جاتی تھیں جہاں سے ہر کوئی اپنی ضرورت کے مطابق کھچڑ ی وصول کرسکتا تھا ۔ جنابِ بھٹو نے عوام کو ’’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ فراہم کرنے کا وعدہ تو کِیا تھا لیکن، وہ، اُن کے بعد اُن کی وزیراعظم بیٹی ،محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد صدر آصف زرداری بھی یہ وعدہ پورا نہیں کرسکے؟ ۔ پھر اُن حکمرانوں کو کیا کہا جائے کہ جنہوں نے اِس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہیں کِیا تھا ؟۔ ہمارے پیارے پاکستان میں تو،ہر دَور میں غریب ، غرباء کے لئے ’’ایک ماہ روزے اور گیارہ ماہ فاقے‘‘ کا نظام رہا ہے ۔ آج بھی وہی نظام قائم ہے ۔ اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں کہ … گیارہ مہینے ، بُھوک پیاس سے ، رہتے ہیں ہَلکان! پھر بھی ہلالِ رمضاں، بڑھاوے ،جذبۂ ایمان! …O… یُوں تو ارضِ پاک میں ، ہر نعمت ہے ،ماشاء اللہ! لیک ، ہماری انتڑّیاں، پڑھتی ہیں ، قُلْ ھُوَاللہ! …O… کریں تِلاوَت،قاری،مُلاّ،سُورۂ رحمن! کیسے کریں ؟ اَفطار و سَحر، ہم ، مِن شہرِ رمضان !