پچھلے د ِنوں ایک سو سا لہ پاکستانی بزرگ نے ایک اٹھارہ سال کی دوشیزہ سے شادی کر کے دُولھا اَور دُلھن کی ُعمر میں فرق کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اُس بزرگ کا ریکارڈ یہاں تو شاید ہی کوئی توڑ سکے لیکن بیرو ِن ملک یہ ریکارڈ اگلے ہی روز ٹوٹ گیا اَور ُیوں ہمارے ملک کے ہاتھ سے ایک بڑا اِعزاز چھن گیا ۔اِس ریکارڈ کو کینیا کے ایک سو سالہ شخص نے توڑا ہے جس نے چودہ سال کی دوشیزہ سے شادی کر کے ، اَپنا اَور اَپنی دُلھن کا نام نکاح رجسٹر کے علاوہ تاریخ میںبھی لکھوا لیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ: ’’شادی بیاہ کے معاملے میں ُعمر کی قید محض َڈھکوسلا ہے۔ فطرت نے اِس سلسلے میں ُعمر کی کوئی َحد مقر ّرنہیں کی ۔میری ُعمر اگر سو کے بجائے ڈیڑھ سو سال ہوتی ، تب بھی میں شادی کرنے سے باز نہ َرہتا۔ اِنسان بکری کے گوشت ، مرغی یا کچھوے کے اَنڈوں اَور شہد کا اِستعمال کرتا رہے تو اُس کے َمرنے کا سوال ہی َپیدا نہیں ہوتا؛ اَور اگر ز ِندہ ہی َرہنا ہے تو اِنسان کو چاہیے کہ ُوہ َمردوں کی طرح مناسب َوقفے سے شادی کرتا رہے ! حالیہ شادی سے پہلے میری چار بیویاں یکے بعد دیگرے وفات پا چکی ہیں۔ اُن کے َمر جانے کی وجہ یہ تھی کہ ُوہ خوراک کے سلسلے میں میری طرح محتاط نہیں تھیں۔ بہرحال جب میری آ خری بیوی بیمار پڑی تو میںنے اُسے ہسپتال میں جمع کروا کے ، رسید جیب میں ڈالی اَورپانچویں شادی کر لی۔ لوگ بہتیرا کہتے ہیں کہ ’’ یہ پانچویں شادی تمھیں َ ّچھٹی کا دُودھ یاد د ِلا دے گی‘‘ ؛ لیکن میں اُن کی بکواس پر کان نہیں دھرتا… ابھی تو یہ میری پانچویں شادی ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا…آپ دیکھیں گے (آپ نہیں تو آپ کے بیٹے اَور پوتے دیکھیں گے) کہ میں چھٹی اَور پھر ساتویں شادی بھی کروں گا۔ اَب تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ نئی شادی کرنے کے لیے ُپرانی بیوی کے فوت ہونے کا اِنتظار بھی نہیں کروں گا اور رشتہ مانگنے کے لیے اُسی کو متوقع سسرال کے ہاں بھیجا کروں گا! میں بیویوں سے ڈر کرراہِ فرار اِختیار کرنے والا شخص نہیں ُہوں۔ بحمد اللہ َمیں مسلمان ہوں بلکہ َمرد ِمومن ُہوں جس کے بارے میں ایک پاکستانی شا عر کچھ اِس قسم کی بات َکہگئے ہیں کہ ’’ مرد ِ مومن کی نظر بازی سے تقدیریں بدل جاتی ہیں! ‘‘ آپ خود دیکھ سکتے ہیںکہ میں جس خاتون پر نظر ڈالتا ُہوںاُس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ُہوں! ‘‘ کینیا کے اِس مرد ِ مومن کے بارے میں پتا چلا ہے کہ اُس کی ّصحت قا ِبل حسد ہے ۔شادی کے روز ُوہ اپنے قدموںپر چل کر دُلھن کے ہاں پہنچا ۔ہر چند کہ دوستوں نے اُس کے لئے ایک ایمبولینس تیار کر رکھی تھی جس میں آکسیجن کا سلنڈر بھی رکھوا دیا تھا لیکن بڑے میاں نے ایمبولینس میں بیٹھنے سے صاف اِنکار کر دیا حالانکہ ایمبولینس کو رنگ برنگ ُپھولوں اَور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ: میری ّصحت کا راز ہی َپیدل چلنے میں ہے۔ جب تک ز ِندہ ُہوں َپیدل چل کر ہی سسرال کے ہاں پہنچوں گا! مجبوراً دوستوں نے ہار مان لی لیکن احتیاطاً ایمبولینس اَور ڈاکٹر کو واپس نہ کیا کہ کون جانے کس وقت ضرورت پڑ جائے! شادی کے تین روز بعد اَخباری نمائندے سے گفتگو کرتے دُولھا میاں نے کہا : ’’پہلی شادیوں سے میرے پانچ ّبچے ہیں( یعنی کہ جو ز ِندہ بچے ہیں)۔ اُن میں سے تین بچے بڑھاپے کے باعث چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ باقی صرف دوبچتے ہیں۔ اَب سو سال کے شخص کے لیے َمرنے (بلکہ شادی کر لینے) کا مقام ہے کہ اُس کے صرف دو ّبچے ہوں۔ لوگ کہہسکتے ہیں کہ اِتنی ڈھیر ساری شادیوں کا حاصل صرف دو ّبچے!میری موجودہ شادی کے پس منظر میں یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ میں مزید ّ بچے حاصل کرنا چاہتا ُہوں۔ مجھے صحت مند ، گول مٹول اَور کالے کلوٹے ّبچے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں چاہتا ُہوں کہ میرے ہونے والے ّبچے جوان ہو کر میرے بڑھاپے کا سہارا بنیں! ‘‘ بڑے میاں کی عبرت آموز باتیں سننے کے بعد اَخباری نمائندہ اُس کی نو بیاہتا دُلہن کے پاس پہنچا۔ وہ ہنی ُمون منانے کے انتظامات میں کافی مصروف تھی ۔اُسے پلک جھپکنے کی فرصت نہیں تھی مگر پھر بھی اُس نے اَخباری نمائندے کے لیے وقت نکال لیا اَور اُس کے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’میں اِس شادی سے بہت خوش ُہوں… اِتنی خوش کہ آپ میری خوشی کا اَندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ میں خوش نصیب ُہوں کہ مجھے سو سال کا شوہر ِملا۔ سو سال کا شخص لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ بدنصیب ہیں ُوہ لڑکیاں جو َنوجوانوں سے شادی رچا بیٹھتی ہیں اَور ایک لمبے عرصے تک پچھتاتی رہتی ہیں۔ مجھے اگر پچھتانا بھی پڑا تو یہی کوئی چار چھے سال۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی کو ملازم رکھتے وقت تو تجربہ کار لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن شوہر رکھتے وقت خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ بالکل ناتجربہ کار نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے! ‘‘ ایک اَور سوال کے جواب میں دُلھن نے کہا: ’’میری شادی کو صرف تین د ِن ہوئے ہیں لیکن مجھے ُیوں لگتا ہے کہ تین سال ہو گئے ہیں۔ اِس طویل عرصے میں میرے خاوند نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا بلکہ ُیوں کہیے کہ اُس کا ہاتھ اُٹھ ہی نہیں سکتا۔ فزیوتھراپی کے بعد ممکن ہے کہ اُس کا ہاتھ اُٹھ سکے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھ پر اُس کا ہاتھ پھر بھی نہ اُٹھے گا۔ ُعمر رسیدہ اور خدا رسیدہ حضرات ہی جانتے ہیں کہ بیویوں سے کیسا سلوک کرنا چاہیے! ‘‘ جب اُس سے ُپوچھا گیا کہ ـبیوہ ہونے کے بعد ُوہ پھر کسی صد سالہ شخص سے شادی کرے گی یا کسی نوجوان کو چانس دے گی… تو دُلھن نے کہا: ’’آپ نے بہت اچھا اَور برمحل سوال کیا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی عورت کسی وقت بھی بیوہ ہو سکتی ہے۔ ہر عورت کے بیوہ ہونے کا ایک دن مقرر ہے۔ بعض عورتیں خوش نصیب ہوتی ہیں۔ ان کی قسمت میں بیوہ ہونا لکھا ہی نہیں ہوتا۔ وُہ مرتے دم تک بیوہ نہیں ہوتیں۔ میرے سلسلے میں اکثر لوگوں کا خیال ہے آج کل میں بیوہ ہو جائوں گی لیکن میرے خاوند کی صحت ڈیڑھ درجن بیماریوں کے باوجودبہت اچھی ہے۔ میرا اَپنا خیال ہے کہ تین چار سال تک اُن کی ز ِندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ بہرحال بیوہ ہونے کے بعد کی منصوبہ بندی میں نے کر رکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگلی بار َمیں نسبتاً کم ُعمر شخص سے شادی کروں گی! اگر چہ کم عمر شخص سے شادی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا لیکن مُنہ کا ذائقہ بدلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ انسان ایک ہی ڈگر پر چلتا رہے ۔ بوڑھوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ میرا اگلا خاوند نوجوان ہوگا۔ ‘‘ ’’ کیا وُہ عمر میں آپ سے بھی چھوٹا ہوگا؟ ‘‘ اخباری نمائندے نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اُس نے میرے لئے جس خاوند کا انتخاب کر رکھا ہے، مجھے قبول ہوگا۔ اللہ کی مرضی تو ماننا ہی پڑتی ہے۔ ‘‘ ٭٭٭٭٭