پاکستان کے 26ویں چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے ۔ اب جب 18جنوری کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کے 12ماہ 17دن کے ہنگامہ خیز دنوں پر گفتگو کرتے ہوئے کم از کم ایک خوف تو نہیں کہ کہا ،لکھا تو ہین عدالت کے زمرے میں آجائے گا۔یہ توہین عدالت یعنی contempt of court بھی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی آج تک تو تشریح ہو نہیں سکی کہ پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں جو 25 چیف جسٹس اس عہدہ ٔ جلیلہ پر پہنچے۔ان میں چند چیف صاحبان کو چھوڑ کرسارے چیفوں کے دور میں ریاست کے اس مقدس ترین ستون کی بے توقیری کی گئی۔جس کی سب سے بڑی مثال تو وطن عزیز میں کم از کم چار بار مارشل لاء لگانے والے فوجی ڈکٹیٹروں یعنی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان 1958-1968 … جنرل محمد یحییٰ خان (1968-1970)، جنرل ضیاء الحق (1977-1988)کی ہی ہے کہ جب جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ایوان اقتدار کو بوٹوں سے روند رہے تھے تو شاہراہ دستور پر صف بستہ دستِ بستہ اُن کے استقبال کے لیے جبہ و د ستار پہنے منصفوں کی ایک قطار کھڑی ہوتی تھی ۔کیا اس سے بڑی عدالت عالیہ کی contemptیعنی توہین ہوسکتی تھی؟اور پھر فوجی جنرلوں کے ہاتھوں ہی کیا ۔۔۔ابھی قیام پاکستان کو 7سال بھی نہ گزرے تھے کہ پہلی دستور ساز اسمبلی کو گھر بھیجنے والا کوئی اور نہیں بلکہ چیف جسٹس محمد منیر جیسے پائے کا قانون داں تھا۔جنہوں نے بعد میں’’ جناح ٹو ضیائ‘‘ جیسی کتاب لکھ کر اپنے اور بعد میں آنے والے برادر ججوں کی گناہوں کی تلافی کرنے کی سعی ٔ ناکام کی۔میں براہ راست سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور ِ منصفی پر آنا چاہتا ہوں کہ ایک موقراخبار نے انہیں جوڈیشل ایکٹوازم کا بانی قرار دیا ہے۔یہ لیجئے ، contempt of courtیعنی توہین عدالت کے بعد جوڈیشل ایکٹو ازم کا موضوع بھی ایک طول طویل وضاحت کا طالب ہے۔۔۔ کہ یہ کہاں سے شروع اور کہاں جا کر اس کی حد پر لکیر کھینچے گی۔ویسے تو جوڈیشل ایکٹو ازم کے اعتبار سے اس بات کا تعین کرنا بھی مشکل ہے کہ اس میں ہمارے سابق چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوہدری (June 2005-Nov 2007)اور پھر (Mar 2009-Dec 2013)سابق ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار سے دو بلکہ چار قدم آگے تھے۔اب اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سات سالہ دور منصفی میں چلا گیا تو کم از کم ایک دو کالموںمیں تو اُسے سمیٹا نہیں جاسکے گاکہ بہرحال یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اْ س وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو ترچھی آنکھیں دکھا کر جس طرح وہ سڑکوں پر آئے اور پھر مہینوں جس طرح شہروں،شہروں انہوں نے آزادی عدلیہ کیلئے جنگ لڑی اُس کی بھی ماضی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔مگر یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ ’’باروں ‘‘ اور بینچوں کے جن سرخیلوں نے انہیں ہیرو بلکہ سُپر ہیرو کا درجہ دیا ۔میری مراد خاص طور پر اپنے سینئر وکیل دوستوں محترم چوہدری اعتزاز احسن ، محترم علی احمد کرد،اور محترم منیر ملک سے ہے۔بعد میں انہوں نے ہی اسکرینوں پر آکر باقاعدہ اس پر معذرت اور معافی مانگی کہ عدلیہ کا چوہدری بنانے میں ان کے قبیلے نے جو کردار ادا کیا اُس سے آزاد عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔عام طور پر اپنے حوالے سے لکھتے ہوئے گریز کرتا ہوں۔ مگر اُن دنوں میں اسکرین پر آواز لگانے کے ساتھ ساتھ لاہور سے ہی نکلنے والے ایک روزنامے میں قلم کی گھسائی کیا کرتا تھا۔ایک سے زیادہ بار اُس زمانے میں زبان اور قلم سے محترم سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہدف بنا کرتے تھے۔خاص طور پر جب ہمارے محترم چوہدری صاحب کے صاحبزادے ارسلان افتخار کا اسکینڈل سامنے آیا تو باقاعدہ ’’اب صاحب انصاف ہے خود طالب ِ انصاف‘‘ کے نام سے کالموں کے ڈھیر لگادئیے۔یہ ہمارے محترم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے عروج کا زمانہ تھا۔مشرف دشمنی میں اسکرین اور قلم کے سارے کھڑ پینچ اور سرخیل انہیں آسمان پر اٹھائے ہوئے تھے۔اس لئے اُن کو ہماری نحیف و نزار آواز اور تحریر کیسے پہنچتی۔مگر ابھی مہینہ دو پہلے ، دلچسپ بات یہ ہوئی کہ نیو یارک میں مقیم ہمارے دوست،ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ رانا رمضان ایڈووکیٹ جو ہمارے دہائیوں سے ہم نوالہ ،ہم پیالہ رہے ہیں اور جو ہمارے جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے بھی امریکہ میں مستقل میزبان ہوتے ہیں۔برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ بھئی اسکرین پر ہر ایرے غیرے کو لابٹھالتے ہو۔ ہمارے چوہدری چیف کی بھی تو سنو کہ جنہوں نے باقاعدہ اب ایک جماعت بنا لی ہے۔اور پھر رانا صاحب ہی نے اسلام آباد میں چوہدری صاحب سے ہماری اسکرین پرملاقات کا اہتمام کیا۔پہلی ملاقات اس لئے خوشگوار رہی کہ ماضی کے دنوں کی رنجش پر وہ اور ہم ’’مٹی پاؤ‘‘کے مقولے پر خوش دلی سے قائم رہے ۔یہ لیجئے۔اکثر بھٹکنے کا ذکر کرتا ہوں۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی رخصتی پر تفصیلی کالم باندھنا تھا مگر یہ بھی کیوں کر ممکن تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے جوڈیشل ایکٹو ازم کا ذکر آئے اور محترم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سرسری چھو دیا جائے۔کہ حقیقی معنوں میں ’’جوڈیشل ایکٹو ازم ‘‘کے بانی ہونے کا بہر حال کریڈٹ ہمارے ریٹائرہونے والے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ہی جائے گا۔ جنہوں نے اپنے سارے دورِ منصفی میں سیاستدانوں سمیت مقتدر اداروں کے سرخیلوں کو دہلائے رکھا۔اور ساتھ ہی باریں،بینچیں بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر کالے کوٹ بھائیوں کی ایک ایسی فوج ظفر ِ موج کی فصل کھڑی کردی جس نے ہمارے کراچی والے ’’بھائیوں ‘‘ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ’’مخالفین‘‘ کی اینٹ سے اینٹ ہی نہیں بجائی بلکہ ساری عمارت ہی ڈھا دی۔کالے کوٹوں کی مرضی و منشا پر نہ چلنے والے سالکوں اور ججوں کی ڈنڈوں اور ٹھڈوں سے بھری عدالتوں میں جو تواضع ہوئی اس کی مثال بھی ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔جہاں تک ہمارے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جوڈیشل ایکٹو ازم کا تعلق ہے تو۔ ۔ ۔ اس بات کا کھلے عام دل سے اعتراف کرنا چاہئے کہ پہلی بار سیاست ،تجارت اور سرکار کے ہی نہیں خود ہماری میڈیا کے بڑے بڑے سپریم کورٹ میں کپکپاتے ،گھگھیاتے کھڑے ہوتے تھے۔اور پھر ان میں سے بیشتر کو ضمانتوں پر 5اسٹار اسپتالوں اور اپنی حویلیوں کے بجائے ۔ ۔ ۔جیلوں کی کال کوٹھریوں کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔گذشتہ تین دہائی میں شریف خاندان جب بھی پکڑا گیا۔ اپنے محل نما گھروں میں نظر بند رہا یاپُر آسائش جدہ،لندن میں جلا وطنی ۔ پہلی بار خود اپنی یعنی نواز لیگ کی حکومت میں منتخب وزیر اعظم نہ صرف ساری زندگی کے لئے سیاست سے نا اہل ہوئے بلکہ بکتر بند گاڑی میں اڈیالہ جیل کی وہ قید دیکھنی بھی نصیب ہوئی جو عام ملزم و مجرم لاکھوں کی تعداد میں بھگتے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار کے سال اوپر 17دنوں کے بڑے بڑے فیصلوں اور اُن کے جوڈیشل ایکٹو ازم کو آئندہ کیلئے رکھ چھوڑتا ہوںمگر کون تصور کر سکتا تھا کہ ریئل اسٹیٹ کا سب سے بڑا آئیکون 250 ارب روپے کی پیشکش پر عدالت سے الٹے قدموں لوٹ رہا ہوتا ہے۔ (جاری)