گلگت بلتستان انتخابات میں چند ہی روز باقی ہیں ۔وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے ۔تحریک انصاف کے وفاقی وزراء گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری بھی وہاں مقیم ہیں ۔گلگت بلتستان انتخابات میں تینوں بڑی سیاسی جماعتیں وہی روایتی سیاست کا اظہار کر رہی ہیں ،بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وہاں کے عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہے ۔ وہاں کے عوام کو وعدوں سے لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔2009 میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ انھوں نے آرڈیننس کے ذریعے گلگت بلتستان کو خودمختار حیثیت دی ۔ 2009 میں جب انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی اور سید مہدی شاہ وزیراعلی منتخب ہو ئے ۔2015 ء میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی ۔گلگت بلتستان میں انتخابات میں انھوں نے کامیابی حاصل کی اور حافظ حفیظ الرحمان وزیر اعلی منتخب ہو ئے ۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اکثر ایسا ہوتا رہاہے کہ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہاں انتخابات میں اسی سیاسی جماعت کو کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے الزامات سے بچنے کے لئے فوج کو انتخابی عمل سے دور رکھا ہے ، لیکن سیاسی جماعتیں وہاں کی عوام کے ساتھ روایتی سیاسی کھیل کھیل رہی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) وہاں حکمران رہے لیکن مریم نواز اور بلاول زرداری گلگت بلتستان کے مسائل کے ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان کو سمجھتے ہیں ۔دونوں رہنما وہاں کی محرمیوں کا تمام ملبہ وزیر اعظم عمران خان پر ڈال رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے تخت اسلام آباد پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی براجمان رہی ہے ۔اگر کوئی گلگت بلتستان کی محرومیوں کی حقیقی ذمہ دار ہے تو وہ یہی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ مریم نواز اور بلاول زرداری کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان پر الزامات نہ لگائیںاس لئے کہ اس سے قبل ان کی وفاق میں کبھی حکومت نہیں رہی اور نہ ہی گلگت بلتستان میں ان کی جماعت اقتدار میں رہی ہے ۔اگر ان پر الزامات ہی لگانے ہیں تو اس کے لئے بطور وزیر اعظم ،عمران خان کی حکومت کی دوسالہ کارکردگی ہی کافی ہے ۔ گلگت بلتستان کے مسائل اور محرمیوں کا ہرگز وہ ذمہ دار نہیں ۔مریم نواز اور بلاول زرداری گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے پانچ پانچ سالہ دور حکومت کا حساب دیں اور ان کو مزید بیوقوف بنانے سے گریز کریں، اس لئے کہ موجودہ دور کارکردگی کا ہے صرف تقریروں پر ووٹ کا حصول اب بہت ہی مشکل ہوگیا ہے ۔ حزب اختلاف کی طرح وزیر اعظم عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کی عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کی ۔ انھوں نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور عوام کو خوش خبری سنائی کہ وہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائیں گے ۔جولائی 2018 میں قومی انتخابات سے قبل انھوں نے صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کو اپنے ساتھ اس وعدے پر شامل کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنائیں گے ۔دوسال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا لیکن ابھی تک جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔وزیر اعظم عمران خان نے وہاں کے عوام کو سیکرٹریٹ کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ۔ جنوبی پنجاب کے عوام مسائل کے حل کے لئے اب کبھی ملتان توکبھی بہاولپور کا رخ کرتے ہیں ۔ لیکن وہاں سے ان کو جواب ملتا ہے کہ صاحب لاہور ہوتے ہیں ۔ایڈیشنل آئی جی کا عہدہ بھی خالی ہے، اس لئے کہ انعام غنی بھی اب لاہور آگئے ہیں۔جنوبی پنجاب کے لوگ پہلے صرف لاہور کا چکر کاٹتے تھے اب وہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی سیاسی فراصت کی وجہ سے ملتان اور بہاولپور میں صاحب کا معلوم کرنے کے بعد لاہور آتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ انتخابی مہم میں روایتی سیاست سے گریز کریں، اس لئے کہ ان کے مسائل اور محرومیاں پہلے سے زیادہ ہیں ۔ ان پر مزید بوجھ ڈالنا وہاں کے عوام کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ ظلم ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات مریم نواز اور بلاول زرداری کے لئے ایک امتحان ہے ۔دونوںپہلی مرتبہ شریف اور زرداری خاندان کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کے بغیر انتخابی مہم کے لئے میدان میں ہیں ۔اگر وہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں مخلوط حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔گلگت بلتستان میں مریم نواز اور بلاول زرداری کی کامیابی پر اسلام آباد میں کہرام مچ سکتا ہے ۔حزب اختلاف کی جو احتجاجی تحریک اس وقت جاری ہے، اس کو تقویت مل سکتی ہے ۔دوسری طرف گلگت بلتستان کے انتخابات وزیر اعظم عمران خان کے لئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے کہ اسلام آباد میں جو بھی سیاسی جماعت حکمران رہی ہے کشمیر اور گلگت بلتستان کی عوام نے اکثر انہی کو ووٹ دیا ہے ،اس لئے وزیر اعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ کسی بھی صورت اور قیمت پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے ۔ غالب گمان تو یہی ہے کہ حکمران جماعت کو ہی ووٹ ملیں گے لیکن اگر نتائج اس کے برعکس آئے او ر وزیر اعظم عمران خان کی جماعت نے واضح کامیابی حا صل نہیں کی تو پھر ان کی حکومت مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔اگر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت وہاں سادہ سی اکثریت حاصل کرتی ہے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو مخلوط حکومت بنانے سے روکنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر بھی حزب اختلاف گلگت بلتستان کے نتائج کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کریں گے۔بہرحال حقیقت یہی ہے کہ گلگت بلتستان کی محرمیوں کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان نہیں ،ان کو بھی چاہئے کہ وہاں کے عوام کے ساتھ روایتی سیاست سے گریز کریں۔