ہماری سیاست تو عرصہ دراز سے زوال کا شکار ہے اب ہمارا ادب بھی وادی زوال میں غروب ہوتا جا رہا ہے۔ پاک دھرتی کے پیارے شاعر حمایت علی کی وفات پر یہ خیال صرف اس دریدہ دل میں ہی نہیں بلکہ بہت ساری اداس آنکھوں کے آنگن میں اترا ہوگا۔ جن لوگوں نے حمایت علی شاعرکی کلام کو روبرو سنا ہوگا ان کو معلوم ہوگا کہ شاعری پڑھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے۔ اب تو ہمارے معاشرے میں وہ مشاعروں کی ثقافت بھی بجھتی جا رہی ہے جب شاعر اور پرستار تتلیوں تتلیوں اور جگنوئوں کی طرح دور سے اڑ کر آتے تھے اور ایک فن کی صاف شفاف جھیل کے کنارے دل کی شمع جلا کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس ماحول میں جب شاعر اپنا کلام پیش کرتے تھے تب دل سینے کی سوکھی ندی میں مچھلی کے مانند تڑپنے لگتا تھا۔ وہ شاعر اب کہاں ہیں جن کے وجود سے یہ خاک پاک مسکراتی تھی۔ ان شاعروں نے صرف محبت کے گیت ہی نہیں لکھے بلکہ وطن سے پیمان کے وہ پیارے پیارے گیت لکھے جن کو موسیقی کے سروں میں سجایا گیا تو سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ کتنے خوبصورت گیت لکھے گئے تھے اور کتنے عظیم فنکاروں نے ان گیتوں کو اپنے گلے کے رس سے بھگویا۔ آج بھی اگر استاد امانت علی خان کا یہ گیت کوئی سنے تو روح کی وادی میں بجلیاں کوند جاتی ہیں۔ ’’پیارے وطن ‘ پاک وطن تم سے ہے میری تمنائوں کی دنیا پُرنور عزم میرا کہیں‘ میرے ارادے ہیں غیور میری ہستی میں اَنا‘ میری مستی میں شعور جاں فضا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن اے میرے پیارے وطن!!‘‘ ایسی صدائیں اب ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔ حمایت علی شاعر کی وفات پر میرا دل اس لیے بھی افسردہ ہوگیا کہ انہوں نے آخری سانس اپنے محبوب وطن کی ہواؤں میں نہیں لی۔ وہ شخص زندگی میں دور بار جلاوطن ہوا۔ ایک بار جب وہ پاکستان بننے کے بعد اورنگ آباد سے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے آیا اور دوسری بار جب وہ بڑی عمر میں اپنے بیٹے کے ہمراہ پاکستان سے کینڈا گیا۔ وہ قیام پاکستان سے قبل آل آنڈیا ریڈیو میں کام کرتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے دل کی تمام تر دولت لیکر پاکستان آئے اور خوابوں کی تعبیر جیسے وطن کے وجود کو اپنے گیتوں کے گلوں سے سجانا شروع۔ وہ صرف سننے میں ہی نہیں بلکہ دیکھنے میں بھی کلاسیکل شاعر نظر آتے تھے۔ ان کے شانوں پر بکھرے ہوئے بال اور ان کے انداز میں وہ شاعرانہ پن؛ دیکھنے والوں کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھا۔ حمایت علی شاعر کا حسن صرف ان کے کلام کی رنگین اداؤں تک محدود نہ تھا۔ وہ بڑے کمال کے شاعر تھے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ صرف اپنی شاعری سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ ان کے کانوں پر جب بھی کوئی خوبصورت مصرع بارش کی بوند بن کر پڑتا تھا وہ گل کی طرح کھل اٹھتے تھے۔ ان کے کلام میں اس لیے بھی کمال کی وسعت تھی کہ وہ تنگ دل نہیں تھے۔ وہ اچھے شعروں کے عاشق تھے۔ اس لیے جب شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تب حمایت علی شاعر نے جامع سندھ میں ملازمت کی اور اس طرح علم کی آغوش میں فن کے پھول کھلنے لگے۔ سندھی زباں کے عالم‘ شاعر اور ادیب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیخ ایاز حمایت علی شاعر سے کس قدرپیار کرتے تھے۔ وہ اپنی شاعری انہیں سناتے اور ان کی شاعری خود سنتے۔ شیخ ایاز کو یہ احساس تھا کہ جامع سندھ کا شعبہ اردو بہت کمزور ہے۔ اس لیے انہوں نے اس کمزوری کو طاقت میں تبدیل کرنے کے لیے حمایت علی شاعر سے کہا کہ وہ اردو زباں کی ترقی کے لیے تاریخی کردار ادا کریں۔ شیخ ایاز کی اس فرمائش پر حمایت علی شاعر کراچی میں اپنا گھر چھوڑ کر جامشورو کی پہاڑی سرزمین پر اپنا ٹھکانہ بنایا۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جس دور میں دولت اور طاقت کے سوا اور کسی چیز کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے ہم نہ صرف فن بلکہ فکر کے حوالے سے بھی زوال پزیر ہیں۔ ہم جب اپنے وطن کے ایک بہت بڑے شاعر کو عزت نہیں دیتے اور ان کے لیے سرکاری سطح پر انہیں الوداع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے تو اس وقت ہم اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک کسی بیوپاری اور سرمایہ دار کا نہیں بلکہ ایک عظیم شاعر کا خواب تھا۔یہ ملک جس پر چوروں اور ڈاکوؤں نے حکومت کی ہے۔ اس ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا گیا ہے مگر پھر بھی اس وطن کا وجود زخموں سے چور ہونے کے باوجود مسکرا رہا ہے تو یہ کمال علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کی تعبیر کا ہے۔ جب ہماری ملکی سیاست قائد اعظم کے کردار اور علامہ اقبال کے افکار سے محروم ہوگئی تب ہم اندھیرے میں دھکے کھانے کی سزا سے گزر رہے ہیں۔ ہم کو صرف سیاست کی نہیں بلکہ صاف شفاف صحافت اور اس کے ساتھ ساتھ علم اور ادب کی بھی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو ہم صورت میں پورا کرسکتے ہیں جب ہم اپنے اہل قلم حضرات کو ان کی حقیقی حیثیت دینے میں کسی قسم کی کنجوسی نہ کریں۔ شاعری اور شعور کا آپس میں مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ایک باشعور اور حقیقی شاعر جانتا ہے کہ شاعری کا مقصد صرف عورت کی تعریف نہیں ہے۔ شاعری جب شعور کے ساتھ رشتہ قائم کرتی ہے تب فکر کی عظیم طاقت وجود میں آتی ہے۔ وہ طاقت جو علامہ اقبال کی شاعری سے اس طرح بہہ رہی ہے جس طرح چھتے سے شہد بہتا ہے۔علامہ اقبال کی شاعری میں شعور اپنی پوری بلندی پر نظر آتا ہے۔ اس شعور کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ شاعری کو صرف سیاسی افکار اور تاریخی اظہار تک محدود نہ رکھا جائے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں جہاں اپنے ماضی اور اپنے حال کی تاریخ کا پورا طواف ہے وہاں ان کی شاعری میں محبت اور حسن کے وہ جلوے بھی ہیں جن کے بغیر زندگی روکھی روٹی کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے۔ حمایت علی شاعر نے اپنی شاعری میں وطن سے پیار کے پیمان بھی کیے ان اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہماری نسل نو کو اظہار فن کے ذریعے نئے حوصلوں سے آشنا کیا۔ یہی سبب تھا کہ ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام تھا ’’آگ میں پھول‘‘حمایت علی شاعر کی نظرمیں حقیقی شاعری آگ میں پھول ہی تھی۔ وہ آگ میں پھول کھلانے والے شاعر تھے۔ انہوں نے حسن اور محبت کے بارے میں جو فلمی گیت بھی لکھے وہ پاکستانی سینما کے عروج والے دنوں کے گیت تھے۔ آج بھی ہم سفید بالوں والوں کو ان کے اس گیت میں عجیب سی لذت محسوس ہونے لگتی ہے جب کوئی گاتا ہے۔ ’’نہ چھڑا سکوگے دامن نہ نظر چرا سکو گے جو میں دل کی بات کہدوں تو کہیں نہ جا سکو گے‘‘ ان کے کلام میں صرف سطحی محبت کی بات نہیں۔ جب وہ اپنا مشہور گیت گنگناتے ہیں ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ تب ان کی شاعری میں اتنی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے جتنی گہرائی اس پاک سرزمین میں ہے اور ان کے کلام میں اتنی بلندی پیدا ہوجاتی ہے جتنی بلندی اس سرزمین پر تنے ہوئے خیمہ فلک میں ہے۔ ہم اگر اپنے وطن کو پھر سے مضبوط اور مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم اس صرف سیاست نہیں بلکہ فن اور فکر کی اس گلی سے بھی گذریں جس گلی سے آتی ہوئی خوشبو ہمیں علامہ اقبال کی یاد دلاتی ہے۔