پاکستان کے صوفی ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد سے ان کے لکھنے کے بارے میں بہت پوچھا گیا، مگران کا کوئی ایسا اخباری یا ٹی وی انٹرویو نہیں ہوا، جس میں ان کے مطالعے کے حوالے سے ان سے پوچھا جاتا کہ کون کون سے ملکی اور غیر ملکی ادیب ان کو اچھے لگے اور کیوں؟ مجھے یاد آ رہا ہے کہ انہوں نے امریکی ادیب ہیمنگوے کے ایک ناول Farewell to Arms کا اردو ترجمہ ’’وداع جنگ‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ وہ خوبصورت اور روانی سے بھرپور ناول آج مجھے اس وقت شدت سے یاد آ رہا ہے، جب میں افغانستان کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ نصف صدی جنگ میں جینے والی قوم کے لیے امن کتنا اجنبی لفظ ہے۔ امریکہ کے نئے صدر (خیر اب تو وہ نئے نہیں رہے) اس لیے ہمیں لکھنا چاہئیے کہ امریکہ کے موجودہ صدر نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس کے نویں ماہ یعنی ستمبر میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد مغربی میڈیا میں مسلسل یہ بحث جاری ہے کہ کیا امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی موجودہ فوج طالبان کی طاقت کا سامنا کر پائے گی؟ اس ضمن میں سب سے اہم بات وہ ہے جس کا تذکرہ مغربی دانشور خوف سے نہیں کرتے حالانکہ وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیںکہ افغانستان کی موجودہ فوج میں طالبان کے لیے نرم گوشے سے کہیں زیادہ ان کی حمایت ہے۔ اب تک طالبان نے اپنا وہ ہتھیار استعمال نہیں کیا، جو ان کے پاس افغانستان کی فوج میں اپنے حامیوں کے صورت میں موجود ہے۔ افغانستان کا موجودہ سرکاری سیٹ اپ تو پتوں کا بنا ہوا ،وہ محل ہے جو کسی بھی جھونکے سے زمیں بوس ہوکر بکھر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کی قسمت میں امن نہیں ہے؟ ایک طرف افغانستان میں طرح طرح کے مفادات متحرک ہیں اور دوسری طرف روس سے لیکر چین اور چین سے لیکر ایران اور بھارت افغانستان کی دھرتی کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ افغانستان کی خوش قسمتی اس کی بدقسمتی بن گئی ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی پوزیشن اتنی اہم ہے کہ عالمی سیاست میں متحرک کوئی بھی ملک افغانستان کو کسی صورت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا افغانستان عالمی طاقتوں کے لیے جنگی کھیل کا میدان بن کر رہے گا۔افغانستان اس امن سے کب ہمکنار ہو گا، جو ہر قوم کا حق ہوتا ہے؟ پاکستان نے پوری کوشش کی ہے کہ افغانستان کو پرامن بنانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیںبشمول اپنی دھرتی ان افغانوں کو پناہ کے لیے دے جو صدیوں سے ہمارے تاریخی؛ تمدنی اور مذہبی وجود کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کی جڑیں افغان سرزمین میں ہیں۔ کوئی دو صدیاں قبل اور کوئی تین صدیاں قبل پہاڑوں سے اترا اور وادی سندھ میں اس طرح مل گیا جس طرح دریا کا پانی سمندر میں مل جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان کو صرف ایک پڑوسی ملک نہیں سمجھتا۔ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات اوس پڑوس سے کہیں زیادہ بلند اور گہرے ہیں۔پاکستان میں عوامی سطح پر افغانستان کے لیے اپنائیت کا احساس ہے۔ پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ افغان عوام ایک ایسے امن سے جڑ جائیں، جو امن موسمی نہ ہو۔ جو امن مستقل ہو۔ کیا ایسا امن اب افغانستان میں کبھی نہیں آ پائے گا؟ ایک وقت ایسا تھا، جب افغانستان جنگ کی سرزمین ہونے کے بجائے علم کی علامت تھا۔ جس طرح بلند پہاڑوں سے پانی بہہ کرمیدانوں کو سیراب کرتا ہے ،اسی طرح افغانستان سے علم کی پہاڑی ندیاں بہا کرتی تھی۔ صرف اس علاقے کے نہیں بلکہ عرب دنیا میں بسنے والے علم کی پیاس بجھانے کے لیے افغانستان کا رخ کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ افغانستان امن کا گہوارہ تھا۔ علم کا پرندہ صرف امن کے درخت کی شاخوں میں آشیانہ بناتا ہے۔ افغان علم کے شیدائی تھے، مگر حقیقی علم اور اعلی تہذیبی روایات کے باعث وہ بہت غیرت مند اور بہادر رہے ہیں۔ اس لیے انگریزوں کا جو حشر افغانوں نے کیا وہ کسی ملک نے نہیں کیا۔ افغانستان کی مٹی میں کچھ خاص ہے۔ وہ کیا ہے؟ آج تک یہ ایک پہیلی ہے۔دوستی اور دشمنی میں افغانوں کا کردار بہت انتہا پسند رہا ہے۔ وہ دوست ایسے ہوتے ہیں کہ دوست پر جان فدا کردیتے ہیں اور اگر افغان دشمن بن جائے تو اس کی دشمنی صدیوں تک چلتی ہے۔ شبلی فراز کے والد احمدفراز نے افغانوں کے کردار پر کیا خوب لکھا ہے: ’’اک ہاتھ میں رومال ہے اک ہاتھ میں تلوار پشتون کا کردار جو پیار کرے پیار کرو وار کرے وار پشتون کا کردار‘‘ افغانستان میں بہت سارے قبائل ہیں، مگر آج تک افغانوں پر پشتون رنگ زیادہ رہا ہے۔ ان سارے قبائل کو جس طرح مذہب نے جوڑ کر رکھا ہے، وہ ایک الگ پہلو ہے۔ اس پہلو پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، علامہ اقبال نے لکھا ہے: ’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند‘‘ افغانستان سے ہمارے بہت سارے رشتے ہیں، اس لیے ہمیں تشویش بھی ہوتی ہے کہ کس طرح افغانوں کی دھرتی پر سازشوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ وہ بھارت جس نے کلچرل سینٹرس کے نام پر پاکستان کی سرحد پر اپنی بدنام زمانہ ایجنسی ’’را‘‘ کا پورا نیٹ ورک بنایا ہوا ہے ،وہ کام امریکی آشیرواد کے بغیر ناممکن تھا۔ بھارت نے افغانستان میں گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ امن پوری دنیا چاہتی ہے۔ دنیا کومعلوم ہے کہ امن صرف ایک لفظ نہیں ہے۔ امن صرف ایک تصور نہیں ہے۔ امن ایک نظام ہے۔ زندگی ہے۔ اس زندگی سے ہمارے افغانی بھائی چار دہائیوں سے محروم ہیں۔ اس دنیا کو تو کوئی احساس نہیں کہ افغان کس کرب سے گزرے ہیں اور گزر رہے ہیں ۔ دنیا کے سارے جھگڑے اور سارے تنازعات ختم ہوئے ہیں مگر افغان امن آج تک ایک خواب بنا ہوا ہے۔ اور ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ افغانستان میں جو بھی بدامنی ہے، مقامی نہیں ہے۔ وہ باہر سے لائی گئی ہے۔ افغانستان جس جنگ اور بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے وہ آگ گھر سے نہیں لگی وہ آگ باہر سے لائی گئی ہے۔ اس وقت افغانستان دنیا کے جسم پر ایک زخم ہے۔ اور دنیا اس کا علاج کرنے میںسچائی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ حالانکہ اس دنیا جو یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے اور آگے چل کر مکمل طور پر سمجھ میں آجائے گی کہ جب تک افغانستان امن سے ہم آغوش نہیں ہوگا، تب تک عالمی امن ادھورا رہے گا۔ افغان امن عالمی امن اٹوٹ انگ ہے۔ جب تک افغانستان سلگتا رہے گا ،تب تک دنیا سکون سے سانس نہیں لے پائے گی۔ یہ دنیا جو امن کا نام لیتی ہے اوربدامنی کا راستہ صاف کرتی ہے۔ یہ دنیا کبھی تو اپنے دوغلے پن سے باز آئے گی۔ اس دنیا کو کبھی تو احساس ہوگا کہ اس نے افغانستان میں آگ لگائی ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ اس آگ کو بجھائے۔ یہ دنیا جو درد تو دیتی ہے مگر دوائی نہیں دیتی۔ یہ دنیا آخر ایسی کیوں ہے؟ یہ دنیا کب بدلے گی؟