پاکستان میں گیس کے بحران کی کہانی مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ ملک میں گیس کے ذخائر ہر سال تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ اسکی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بیرون ملک سے گیس مہنگے داموں ملتی ہے جسے خریدنے کیلیے حکومت کے پاس زرِمبادلہ نہیں اور عوام بھی اس مہنگی گیس کی قیمت دینے کو تیار نہیں۔سردی کے مہینوں میں جب گیس سے گیزر اور انگیٹھیاں چلائی جاتی ہیںتواسکا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے ۔ نتیجہ میں اسکی لوڈ شیڈنگ شروع کردی جاتی ہے یا پریشر بہت کم ہوجاتا ہے۔اس مسئلہ کا حل کیا ہے اسے دیکھنے سے پہلے آئیے اس معاملہ کے پس منظر اور جزئیات کو دیکھتے ہیں۔ ہم پاکستان میںقدرتی گیس کو عام طور پر سوئی گیس کہتے ہیں کیونکہ اسکے پہلے مقامی ذخائر بلوچستان میں سوئی کے مقام پرانیس سو پچاس کی دہائی میں دریافت ہوئے تھے۔ بعد میں سندھ میں قادر پور کے مقام سے بھی بڑے ذخائر ملے۔ اس گیس کی مقدار کو ناپنے کے لیے مختلف پیمانے ہیں۔ عام طور پر ملین اسٹینڈرڈ کیوبک فیٹ پر ڈے(ایم ایم ایس ایف ڈی) استعمال کیا جاتا ہے جسے مختصراً ملین کیوبک فٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات تو چھ برس پہلے ہی پتہ چل گئی تھی کہ ملک گیس کی قلت سے دوچار ہونے جارہا ہے کیونکہ مقامی ذخائر ہر برس کم ہوتے جارہے ہیں۔ مثلاًچھ برس پہلے مقامی گیس کی دستیابی چار ہزارملین کیوبک فٹ تھی۔ اس برس یہ کم ہوکر تقریباًساڑھے تین ہزار ہے۔ یُوں اسکی پیداوارتقریباًچار سوملین کیوبک فٹ کم ہوگئی ہے۔ سندھ سے ملنے والی گیس میں سات فیصد کمی ہوچکی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے گیس ذخائر اگلے 4,5 برسوں میںبہت کم رہ جائیں گے۔اندازہ ہے کہ اگلے چودہ پندرہ برس تک ہمارے گیس کے موجودہ ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے کیونکہ ہم جو توانائی استعمال کرتے ہیں اسکا نصف قدرتی گیس سے پورا کیا جاتا ہے۔ یہ کھانا پکانے‘ سردی میں ہیٹرچلانے‘ گرم پانی کے گیزر چلانے کے ساتھ ساتھ کھاد بنانے‘ بجلی بنانے‘ موٹرگاڑیاںچلانے اور صنعتی کارخانے چلانے میںبھی کام آتی ہے۔ملک کی ایک چوتھائی آبادی گیس پائپ لائن کے نیٹ ورک سے منسلک ہے۔ اسکی قلت یا عدم دستیابی ایک بڑا بحران ہے۔ ملکی گیس کی بڑھتی ہوئی کمی کو پورا کرنے کی خاطر ن لیگ کے دور میں قطر سے مائع شکل میں قدرتی گیس (ایل این جی) خریدنے کا پندرہ سالہ معاہدہ کیا گیا۔ ایل این جی بحری جہازوں میں آتی ہے اور بندرگاہ پر بنائے گئے مخصوص ٹرمینل میں محفوظ کی جاتی ہے۔ پھر اسے گیس کی شکل دے کر پائپ لائن کے ذریعے صارفین تک پہنچایا جاتا ہے۔ایل این جی گیس مقامی گیس کی نسبت کئی گنا مہنگی ہے۔اس وقت پاکستان میں ایل این جی کے دو ٹرمینل ہیں ۔ ان میں بارہ سو ملین کیوبک فٹ گیس ذخیرہ کی جاسکتی ہے۔ حکومتی گیس کمپنیاں انہیں استعمال کریں یا نہ کریں لیکن ان کا مقررہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ تو اس وقت ہمارے پاس مقامی گیس اور ایل این جی ملا کر تقریباً پونے پانچ ہزار ملین کیوبک فٹ گیس دستیاب ہے۔ سردی کے مہینوں میں نومبر سے فروری تک اس کی طلب بڑھ کر ساڑھے پانچ سے چھ ہزار ملین کیوبک فٹ تک جاپہنچتی ہے۔ حکومت کے مختلف عہدیدار گیس کی کمی کے مختلف اعداد و شمار بتاتے رہتے ہیں۔ اعداد و شمار جو بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ عوام کوملک بھر میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ گھروں میں گیس کی فراہمی محدود ہوگئی ہے۔ سی این جی اسٹیشن کو گیس ملنی کم ہوگئی ہے۔ کچھ صنعتی کارخانوں کو بھی عارضی طورر پر گیس کی رسد کم کردی گئی ہے۔ کے الیکٹرک کو بھی مقامی گیس کی بجائے صرف مہنگی ایل این جی فراہم کی جائے گی۔ وفاقی وزیر عمر ایوب تسلیم کرتے ہیں کہ اگر حکومت لوگوں کی ضرورت کے مطابق گیس فراہم کرے تو مجموعی طور پر 7.5 ملین کیوبک فٹ گیس کی ضرورت ہے۔ گویا 2.7ملین کیوبک فٹ کی قلت ہے۔ ملک بھرمیں صرف بیس فیصد گھروں کو پائپ لائن سے گیس ملتی ہے۔اس وقت تیس لاکھ لوگ اپنے گھروں میں نئے گیس کنکشن لگنے کے منتظر ہیں جبکہ گیس کمپنیاںایک سال میں چار لاکھ سے زیادہ کنکشن دینے کی پوزیشن میں نہیں۔زیادہ مسئلہ شہروںمیں ہے جہاں لوگ پائپ لائن سے گیس حاصل کرتے ہیں۔ دیہات کے گھروں میں تو لوگ گوبر‘ درختوں کی شاخوں‘لکڑی‘ کوئلہ وغیرہ سے توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔بعض امیر زمیندار شمسی توانائی کے یونٹس بھی لگارہے ہیں۔ گیس کی موجودہ قلت راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دس برسوں میں مقامی گیس دریافت کرنے کیلئے ایک بھی بلاک نیلام نہیں کیا گیا۔ اب موجودہ حکومت نے بیس بلاکس نیلام کیے ہیں تو امید ہے کہ چند برسوں میں مقامی گیس کی فراہمی بڑھ جائیگی۔ دوسرا طریقہ پائپ لائن سے ایران یا ترکمانستان سے گیس منگوانے کا ہے جسکی قیمت ایل این جی سے نصف ہے لیکن افغانستان میں بدامنی کے باعث ترکمانستان والی پائپ لائن بچھائی نہیں جاسکی۔ ایران سے گیس لینے میں دوست عرب ممالک اور امریکہ کی ناراضگی آڑے آتی ہے۔لے دیکر ایل این جی خریدنے کاراستہ بچتا ہے۔ اسکے لیے دو نئے ٹرمینل درکار ہیں۔ اب حکومت نے انہیں بنانے کا معاہدہ کیا ہے جو ایک سے دو برس میں مکمل ہوں گے تو گیس کی فراہمی بڑھ جائے گی لیکن یہ گیس کئی گنا مہنگی ہوگی۔ پاکستان کے لوگوں کو سستی گیس کی عادت ہوچکی ہے۔حتی کہ ٹیکسٹائل ملیں بھی حکومت سے سستی گیس لیکر بجلی بنا کر بیچ رہی ہیں۔ بجلی بنانے کے جو بڑے پاور پلانٹس ہیں وہ ٹیکسٹائل ملوں کے مقابلہ میں دوگنی قیمت پر گیس خرید رہے ہیں۔ حکومت کو بیرون ملک سے مہنگی گیس خرید کر عوام کو سستی قیمت پر بیچنے سے 320 ارب روپے کے خسارہ کا سامنا ہے۔ جب تک حکومت گیس کی قیمت بڑھانے کا کڑوا گھونٹ نہیں پیے گی ملک میں گیس کی قلت ختم ہونا ممکن نہیں کیونکہ کوئی نجی سرمایہ کار ان حالات میںگھاٹے کا بیوپار کرنے کو تیار نہیں۔اور عوم کو یہ بات سمجھانا خاصا مشکل ہے۔تاہم ‘تلخ حقیقت یہی ہے کہ جب تک گیس کی قیمتوں میں مناسب اضافہ نہیں کیا جاتا گیس کی قلت ختم نہیں ہوسکتی۔دو راستے ہیں یا تو گیس کی قلت رہے اور یا یہ ذرا مہنگی ہوجائے لیکن مسلسل ملتی رہے۔حقیقت پسندی یہی ہے کہ ہم بتدریج گیس کی قیمت بڑھا کر اسکی فراہمی کو یقینی بنائیں۔