آج کی صورتحال میں آپ جو چاہیں قیاس آرائی کرسکتے ہیں۔ اس لئے قیاس آرائیوں کا طوفان آیا ہوا ہے۔ میرے خیال میں حقیقتاً کیا ہورہا ہے۔ یہ بات شاید چند اہم ترین لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم۔ ہاں ہم اور آپ اپنے تجربے ور مشاہدے سے ہی آنے والے دنوں میں پیش آنے والے واقعات پر قیاس آرائی ہی کرسکتے ہیں۔ کون کس کو فون کررہا ہے اور کون کیا جواب دے رہا ہے یہ بھی شاید چند ہی لوگوں کو معلوم ہے۔ خدشے اور اندیشے ضرور ہیں۔ ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ بعض کہہ رہے ہیں کہ حکومت روکے گی اور بعض کا خیال ہے کہ فری ہینڈ دیا جائے گا۔ شاید نیم فری ہینڈ۔ زیادہ متحرک لوگوں کی حرکت میں ضرور چند اسپیڈ بریکر کھڑے کئے جاسکتے ہیں۔ چند کو چند روز کیلئے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاسکتا ہے اور چند کو ڈرا دھمکاکر ہی کام چلایا جائے گا۔ اگر حکومت خواہ عمران خان کے دباؤ میں آکر یا آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی شرائط پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ملک کے معاشی بحران کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے بجائے حکومت چھوڑنے اور الیکشن میں جانے کو ترجیح دے۔ تب بھی یہ سمجھا جائے گا کہ یہ اس تحریک کا ہی نتیجہ ہے جس کی قیادت عمران خان کررہے ہیں۔ تو سمجھ لیجئے اگر اب اسمبلی تحلیل کرنے یا الیکشن میں جانے کا فیصلہ دھرنے کے دوران کیا گیا تو یہ بات لکھ لیں کہ کوئی بھی مستقبل میں حکومت نہیں کرسکے گا۔ جان لیجئے یہ اقتدار کی چھینا جھپٹی کا کھیل ہے۔ باقی سب جذباتی نعرے ہیں۔ دعوے اور وعدے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ عمران نے اپنی اس بات کو سچ کر دکھایا کہ وہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اور زیادہ خطرناک بن گئے‘ لیکن اپنے بے شمار سرپرائز کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے پاکستانی سوسائٹی اور سماج کو دو حصوں میں بٹ گیاہے۔ عمران خان اپنی بات بروقت کہنے میں مہارت ضرور رکھتے ہیں اور اپنے موقف سے پیچھے بھی ہٹ جا تے ہیے۔ وہ بار بار یوٹرن لیتے ہیں۔ اپنا موقف بدلتے ہیں۔ اب ایسا نظر آتا ہے کہ عمران نے لانگ مارچ میں کچھ لچک دکھائی ہے۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا بیک ڈور کوئی نہ کوئی رابطے ضرور ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے سامنے بھی دو راستے ہیں۔ یا تو وہ انہیں فری ہینڈ دیں کہ آپ آئیں اور جہاں چاہیں بیٹھ جائی۔ اس وقت پوری ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر چل رہی ہے۔ آپ کے پاس نہ پینے کا پورا پانی ہے‘ نہ زرعی زمینوں اور فصلوں کیلئے کاشت کا پانی ہے‘ زرعی ملک ہونے کے باوجود آپ 74 سال میں خودکفیل نہ ہوسکے۔ آپ ایکسپورٹ اور امپورٹ کا توازن دیکھ لیں۔ آپ کے ملک پر فیوڈل لارڈز کا قبضہ ہے۔ پوری سیاست ان کے گرد گھومتی ہے۔ پھر ہماری سیاست میں فون کالز کا بڑا چرچا ہے۔ میں مکمل یقین رکھتا ہوں کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا‘ لیکن اسے ہر ملک کے خصوصی ماحول اور حالات کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔ تب ہی وہ ایک ایسی متحرک جمہوریت ہوسکتی ہے جو حقیقت میں لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایسی حکومتیں تشکیل دے جو ان کی ضروریات پوری کرے‘ اگر ایسا نہیں ہوتا جیسا ہمارے ہاں ہے تو یہ جمہوریت کی نقل ہے۔ جس میں نہ تو اس کی روح ہے اور نہ مادہ۔ خصوصاً اگر اس میں بیرونی عنصر زیادہ ہو‘ جیسا کہ پاکستان اور کئی ممالک میں کئی بار ثابت ہوچکا ہے۔ جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے اور یہی اس کی روح ہے۔ ہم ذرا اپنی پوری سیاست پر نظر ڈالیں جو لوگ ہم پر حکمرانی کرتے ہیں یہ سب جمہوریت کے لبادے میں قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے ساتھ عوام کے نام پر حکومت کرتے ہیں۔ ان تھوڑے سے خواص میں بڑے بڑے جاگیردار‘ قبائلی جنگجو‘ سردار اور ہر قماش کے سیاستدان شامل ہیں۔ پاکستان میں ہمیں ایک جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ معاشرہ ملا ہے۔ لوگ صوبوں‘ لسانی‘ قبیلوں‘ ذاتوں اور برادریوں میں منقسم ہیں اور عام طور پر اپنے اپنے قبیلوں‘ ذاتوں اور برادریوں کے باہر ووٹ نہیں دیتے۔ جس کا نتیجہ حکومت کی خراب کارکردگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ الیکشن جمہوریت کی طرف لے جانے کیلئے ایک گاڑی جیسا ذریعہ ہے اور اس پر ہی ہر چیز ختم نہیں ہوجاتی۔ ہماری ناکارہ اور لنگڑی لولی جمہوریت نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جن میں سب سے تکلیف دہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے۔ پچھلی سات دہائیوں کی تکالیف سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ اب زیادہ سے زیادہ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے لئے حقیقی جمہوریت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ بتاتی ہے کہ ہم بری طرح حقیقی جمہوریت کے قیام میں ناکام رہے ہیں۔ اب د یکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا سوچ رہی ہے اور عمران خان کے عزائم کیا ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے موقف پر کس حد تک اپنی شرائط کو ن نرم کرتی ہے۔ میرے خیال میں اب حکومت کی صفوں میں اس بات پر اتفاق ہوتا جارہا ہے کہ الیکشن جلد کرادیئے جائیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز تو اس بات کے حامی دکھائی دے رہے ہیں کہ عمران خان کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جو معاشی حالات ہوگئے ہیں اس کا بوجھ کسی قیمت پر نہ لیا جائے۔ شہباز شریف اور آصف زرداری اس بات پر قائل ہیں کہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے اگست 2023ء کا وقت ملنا چاہئے۔ میرے خیال میں چند انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترامیم کے بعد موجودہ حکومت اکتوبر یا نومبر تک الیکشن کرانے پر رضا مند ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے بعض حلقوں کی کوشش اور خواہش ہے کہ کسی بھی حکومتی معاملات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات پیدا ہوجائیں جس کا انہیں بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ ورنہ اگر انتخابات میں ان دونوں پارٹیوں نے بلکہ حکومتی اتحاد نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے حصہ لیا یا کوئی باقاعدہ انتخابی اتحاد بنالیا تو پھر سندھ بشمول کراچی اور پنجاب اور دیگر دونوں صوبوں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ اتحاد عمران خان کے انتخابات جیتنے کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی معاملات صحیح سمت میں جارہے ہیں‘ لیکن ڈالر کی چال بہت خطرناک ہے۔ اگر اتحادی مشکل فیصلے کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ حکومت کو جہاں تک گھسیٹ سکتے ہیں گھسیٹ لیں۔ عمران خان دلکش اور پرعزم نعروں کے سہارے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں‘ لیکن وہ یہ نہیں بتا پارہے ہیں کہ قدرت نے انہیں حکمرانی کی جو مہلت دی تھی اس میں وہ ناکام کیوں ہوئے اور اگر دوبارہ برسر اقتدار آئے تو کیا کرلیں گے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ وہ ان مسائل سے عوام کو کس طور پر نجات دلائے گی‘ جس کا سامنا وہ عمران کے پورے دور حکومت میں کرتے رہے ہیں۔ یعنی مہنگائی اور بیروزگاری۔ آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے ‘لیکن سب کی دعا یہی ہے کہ جو کچھ بھی ہو اور جس طرح ہو پاکستان کیلئے بہتر ہو۔ ایک بات طے ہے کہ رابطے بیک ڈور ہوں‘ خفیہ ہوں یا آمنے سامنے ہو۔ معاملات کا حل مذاکرات سے ہی ہوگا۔