موضوعات کی تکرار سے بہتر ہے انسان کتابوں کا مطالعہ کرے‘ مجھے اہل علم و فضل کی خود نوشت سوانح عمریاں متاثر کرتی ہیں۔ کتابوں کے ذخیرے سے علامہ محمد اسد کی روڈ ٹو مکّہ نکالی اور اسلام کی طرف اُن کے سفر کا حصہ پڑھنا شروع کر دیا‘ کورونا کی بوریت سے بچنے کے لئے چند اقتباسات سے آپ بھی مستفید ہوں۔ ’’ٹرین کئی کئی بار چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر رکی‘ سانولی صورت والے لڑکے اور بچے جن کے جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے تھے۔ ادھر ادھر اچھل کود کر رہے تھے اور مسافروں کے ہاتھ انجیر‘اُبلے ہوئے انڈے اور روٹی فروخت کر رہے تھے۔ وہ بدو جو میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا‘ آہستہ آہستہ اٹھا اور اپنا مفلر کھولا‘ پھر کھڑکی کھولی‘ اس کا رنگ سانولا اور چہرہ ستواں تھا‘ ان عقابی چہروں میں سے ایک چہرہ جو آہنی عزم اور قوت ارادی کے ساتھ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھتے ہیں اس نے ایک روٹی خریدی اور واپس ہونے لگا۔ جب وہ بیٹھنے جا رہا تھا اس وقت اس کی نگاہ مجھ پر پڑی‘ کچھ کہے بغیر اس نے اس روٹی کے دو ٹکڑے کئے اور ایک مجھے دینے لگا‘ جب اس نے میرا تردد اور تعجب دیکھا تو مسکرایا‘ اس کی مسکراہٹ بھی اس کے چہرے پر اسی طرح موزوں تھی جس طرح عزم اور قوت ارادی‘ پھر اس نے ایک لفظ کہا جو اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا تھا۔ لیکن اب سمجھتا ہوں۔‘‘ تفضّل ‘نوش فرمائیے‘ میں نے وہ ٹکڑا لے لیا اور سر کے اشارہ سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ایک مسافر نے جو ترکی ٹوپی کے علاوہ باقی تمام یورپین لباس میں تھا اور کوئی متوسط درجہ کا تاجر معلوم ہو رہا تھا‘ رضا کارانہ طور پر ترجمہ کی پیشکش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا۔ یہ کہتے ہیں’’کہ آپ بھی مسافر ہیں اور میں بھی مسافر ہوں اور ہم دونوں کا راستہ ایک ہے۔‘‘ جب میں اس معمولی واقعہ پر غور کرتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ عربی اخلاق سے میرے وابستگی اور محبت کی بنیاد اس سے پڑی تھی ‘ اس بدو کے رویہ میں جس نے اجنبیت کی تمام دیواروں کے باوجود اپنے رفیق سفر کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی آدھی روٹی اس کو دے دی‘ انسانیت کی ایک ایسی تصویر اور جھلک تھی جو ہر تصنّع اور تکلف سے پاک تھی۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ اس گہری اور جان دار نماز میں مجھے ان حرکات و سکنات کی موجودگی کچھ سمجھ میں نہ آئی‘ چنانچہ میں نے ’’حاجی‘‘ سے جو تھوڑی بہت انگریزی سمجھتے تھے ایک بار پوچھا:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خدا اس کا منتظر رہتا ہے کہ آپ بار بار اس کے سامنے رکوع و سجود کریں‘ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آدمی تنہائی میں بیٹھ کر سکون اور حضور قلب کے ساتھ پڑھے اور دعا کرے۔ آخر یہ جسمانی حرکات کس غرض سے ہوتی ہیں؟‘‘ ’’ حاجی کے چہرہ پر ناگواری کے مطلق آثار نہ تھے وہ مسکرائے اور کہنے لگے: پھر آپ ہی بتائیے کس طریقہ پر ہم خدا کی عبادت کریں؟ کیا اس نے جسم اور روح کو ایک ساتھ پیدا نہیں کیا؟ اگر یہ بات ہے تو کیا یہ ضروری نہ ہو گا کہ آدمی جس طرح اپنی روح کے ساتھ نماز پڑھتا ہے‘ اسی طرح اپنے جسم کے ساتھ بھی پڑھیں‘ دیکھیے میںآپ کو بتاتا ہوں کہ ہم مسلمان اس طرح کیوں نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ ’’ہم کعبہ کی طرف اس احساس کے ساتھ رخ کرتے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان اسی طرف رخ کئے ہوئے ہیں اور یہ کہ مسلمان ایک جسم ہیں اور خدا ہی ہم سب کی فکر کا محور و مرکز ہے‘ ہم سیدھے کھڑے ہوتے ہیں اور یہ دھیان کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے جو اس نے انسان کو اس کی زندگی کی درستی اور کامیابی کے لئے عطا کیا ہے۔ پھر ہم اللہ اکبر کہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ پھر اس کے سامنے جھک جاتے ہیں‘ اس لئے کہ ہم اس کو سب سے بلند و بالاتر سمجھتے ہیں اور اس کی عزت و بلندی کی تسبیح کرتے ہیں۔‘‘ ’’پھر ہم سجدہ کرتے ہوئے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے ہیں‘ اس احساس کے ساتھ کہ ہم اس کے سامنے مٹی اور خاک کے برابر ہیں‘ بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس نے ہم کو پیدا کیا ہے اور وہی ہمارا بلند و برتر رب ہے‘ پھر پیشانی زمین سے اٹھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اور سیدھے راستہ کی طرف ہماری رہنمائی کرے اور ہم کو صحت و عافیت اور سلامتی عطا کرے‘ پھر ہم دوبارہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لاشریک بے نیاز پروردگار کی عزت و عظمت کے لئے اپنی پیشانی خاک آلود کرتے ہیں پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے نبی ﷺ پر جنہوں نے ہم کو اسلام کا پیغام پہنچایا‘ اپنی رحمت نازل کرے‘ جس طرح اس نے گزشتہ انبیاء پر اپنی رحمت نازل کی اور ہم سب کو اور جو لوگ سیدھے راستہ پر ہیں‘ برکت دے‘ دنیا میں بھی اچھائی دے اور آخرت میں بھی‘ آخر میں دائیں اور بائیں اپنا منہ موڑتے ہوئے کہتے ہیں السلام علیکم و رحمتہ اللہ گویا اس طرح ہم دنیا کے تمام صالحین کو سلام بھیجتے ہیں‘ خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی حالت میں ہوں۔‘‘ ’’اس بار میں فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا کمپارٹمنٹ میں میرے علاوہ صرف دو مسافر اور تھے ایک اسکندریہ کا یونانی تاجر جو مجھ سے ایک مشترک عادت کے مطابق بہت جلد گھل مل گیا اور اس سے بے تکلفی کے ساتھ گفتگو ہونے لگی اور دوسرا ایک مصری چودھری جو اپنے قیمتی ریشمی جبہ اور سنہری گھڑی سے بظاہر مالدار معلوم ہو رہا تھا لیکن وہ اپنی عزلت پر قانع ایک طرف خاموش بیٹھا رہا اور واقعہ یہ ہے کہ جس وقت وہ گفتگو میں شریک ہوا اس وقت اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ‘ مگر اس کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ ذوق سلیم اور ذہانت سے بہرہ ور ہے۔‘‘ ’’ہم لوگ جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے اسلام کے بعض اجتماعی اصولوں پر گفتگو کر رہے تھے جو اس زمانے میں میرے دل دماغ پر چھائے ہوئے تھے میرے رفیق یونانی مسافر نے اسلامی شریعت کے ’’اجتماعی انصاف‘‘ کے بارے میں میرے تاثر کی پوری طرح تائید نہیں کی۔ انہوں نے کہا شریعت اسلامی اتنی عادلانہ نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں میرے دوست پھر وہ فرانسیسی کے بجائے عربی میں گفتگو کرنے لگے تاکہ ہماری مصری رفیق بھی سمجھ سکے۔ انہوں نے اس کی طرف رخ پھیرتے ہوئے کہا آپ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا دین بہت عادلانہ ہے انصاف پسند ہے۔ کیا آپ اس کا جواب دے سکتے ہیں کہ جب اسلام مسلمانوں کو عیسائی اور یہودی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے تو آپ کی بہنوں اور بیٹیوں کو اس کی اجازت کیوں نہیں دیتا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں سے شادیاں کر سکیں ‘ کیا اس کو انصاف کہا جا سکتا ہے؟ باوقار چودھری نے ایک منٹ بھی تردد کے بغیر جواب دیا‘ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ شریعت اسلامی نے یہ قانون کیوں بنایا ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں‘ ہم ان کو حضرت ابراہیمؑ اور دوسرے انبیاء کرام کی طرح اللہ کا رسول سمجھتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ سب وہی طریقہ لے کر آئے جو آخر میں خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ لائے تھے۔ اب کوئی عیسائی لڑکی مسلمانوں سے شادی کرتی ہے تو وہ اس بات کا اطمینان کر سکتی ہے کہ اس کے لئے خاندان اور نئے گھرانے میں اس کی مقدس ہستیوں کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی مسلمان لڑکی غیر مسلم سے شادی کرتی ہے تو اس کو بجا طور پر اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ جن کو وہ اللہ کا رسول سمجھتی ہے ممکن ہے ان کو برے ناموں سے یاد کیا جائے‘ ہو سکتا ہے کہ خود اپنی اولاد ہی سے اس کو ناگوار باتیں سننی پڑیں۔ کیا لڑکے اپنے باپ کے دین کی پیروی نہ کریں گے؟ اس صورت میں کیا آپ اس کو انصاف قرار دیں گے کہ اس غریب عورت کو اس قسم کی مسلسل ذہنی اذیت اور روحانی اہانت برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے؟‘‘ اس ناخواندہ چودھری نے اپنے ذوق سلیم سے جس میں وہ اپنے ساتھیوں سے ممتاز معلوم ہوتا ہے‘ ایک بہت اہم مسئلہ کے بارے میں بڑے پتہ کی بات کہہ دی ہے میں نے محسوس کیا کہ میرے لئے اسلام کا ایک نیا دروازہ کھل رہا ہے۔