کافی عرصے سے ایک موضوع نے دل میں پھندا ڈا ل رکھا تھا۔ ہر بار جب کالم لکھنے کے لئے کسی اہم تر موضوع کا انتخاب کیا،اس پھندے نے ایک جھٹکا سا دے کر گویا یاد دہانی کی ہلکی سی کوشش کی۔ کبھی واقعتا اہم تر معاملات توجہ اپنی طرف مبذول کروالیتے ہیںاور آپ کو ان کی سننی ہی پڑتی ہے۔ایسے میں توجہ طلب لیکن نسبتا غیر اہم موضوعات ذہن کے کسی بند گوشے میں محفوظ رہ جاتے ہیں اور ٹہوکے دے کر اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔یہ موضوع بھی ایک ایسا ہی بھولا بسرا موضوع ہے۔ میری رہائش الحمدللہ ایک متمول علاقے میں ہے۔شہر کی نئی ہاوسنگ اسکیموں میں بنے ایک طرز کے گھروں کے فیشن نے ہم جیسے سفید پوشوں کا اچھا بھرم رکھا ہوا ہے۔کسی کو پتا نہیں چلتا کہ گزارا کیسے ہوتا ہے۔ادھر اکناف و اطراف یعنی پڑوس میں واقعتا ریل پیل ہے۔نت نئے ماڈل کی گاڑیاں اور ویسی ہی بیویاں۔ مرشدی یوسفی نے ایک ایسے زمیندار کا ذکر کیا تھا جس نے شہر کی ہوا کھاتے ہی گنے کی فصل بیچی اور گنے سے ہی ناپ کر ایک لمبی گاڑی خرید لی۔ تو ایسے زمینداروں کی یہاں کمی نہیں جنہیں لمبی گاڑیاں خریدنے کے لئے فصل بیچنے کی ضرورت بھی نہ پڑی ہو اور ایسے کاروباری حضرات کی بھی نہیں جن کے لئے یہ واقعتاً ایک ضرورت ہو۔عموما ان گاڑیوں میں سب سے اچھی اور نئے ماڈل کی گاڑی خاتون خانہ کے انتظار میں گیراج میں کھڑی ہوتی ہے اور ان ہی کے استعمال میں رہتی ہے۔ مرد ہمیشہ سے پال پوس کر خوش ہوتا آیا ہے یہ اس کی ربانی خصوصیات میں سے ایک ہے۔پہلی وہی بے نیازی ہے۔لہٰذا اپنی بیویوں کو پالنے پوسنے والے مرد اپنے لئے نسبتا پرانی اور سستی گاڑی کاانتخاب کرتے ہیں تاکہ بیویوں کا دل بہلا رہے اور ان کی شان ربوبیت کو تسکین بھی ملتی رہے۔ان کی بیگمات کا ایک اور عجیب شوق ہے اور وہ ہے اپنے بچوں کے لئے ان ہی کی ہم عمر بچیوں کو نوکر رکھ لینا جو عرف عام میں میڈ کہلاتی ہیں۔دبلی پتلی نازک سی بچیاں جنہیں خود دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے بچوں کو اسکورٹ کرتی اور کھلاتی پلاتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ڈائپر بدلنے سے انہیں کھانا کھلانے اور لا ن میں ان کے ساتھ کھیلنے کودنے اور انہیں بہلانے تک کی ذمہ داری ان ہی کم سن بچیوں کی ہوتی ہے۔ چھوٹی بچیاں اکثر اپنے کم سن مالکوں کو ہتھ گاڑی میں ڈالے انہیں ٹہلاتی اور گل گشت کرواتی نظر آتی ہیں۔یہ بچے اپنی کم سن میڈ سے اپنی ماوں سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔دن ڈھلتے ہی جب بیگمات کو شاپنگ کا دورہ پڑتا ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی بچیاں نئے ماڈل کی گاڑیوں میں ان کے ہمراہ ہوجاتی ہیں۔ظاہر ہے ان کا کام خریداری میں مدد کرنا نہیں بلکہ ننھے مالکوں کو سنبھالنا ہوتا ہے تاکہ بیگم صاحبہ بلا زحمت شاپنگ اور تفریح کرسکیں۔خریداری سے بھرے شاپر سنبھالنا بھی ا ن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جب سارا خاندان شاپنگ سے تھک ہار کے کسی جدید ریستوران کا رخ کرتا ہے تب بھی یہ معصوم بچیاں اپنے ننھے مالکان کی خاطر داری میں لگی ہوتی ہیں تاکہ گھر والے اطمینان سے کھانا کھا سکیں۔کئی گھرانوں میں چھوٹے بچے نہیں ہوتے پھر بھی بیگمات کل وقتی ملازمت کے لئے کسی پختہ عمر عورت یا مرد کی بجائے ان ہی بچیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ان کا خیال ہوتا ہے کہ بچیاں سرکشی نہیں کرتیں اور آسانی سے رعب میں آجاتی ہیں۔انہیں عام طور پہ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھا جاتا ہے لیکن گھر کے دیگر کام بھی پوری سنگدلی کے ساتھ لئے جاتے ہیں۔سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے پورچ کی دھلائی اور سخت گرمی میں تپتی ہوئی چھت پہ دھلے کپڑے ڈالنا معمول کی باتیں ہیں۔بات بات پہ تشدد کا نشانہ بنانا بھی کوئی خاص بات نہیں۔یہ بچیاں سب کچھ سہہ کر بھی خاموش رہتی ہیں بس ان کی آنکھیں بولتی رہتی ہیں۔ اس خاموشی کی بڑی وجہ ان کے والدین ہیں جو مالکوں سے یک مشت اچھی خاصی رقم اینٹھ لیتے ہیں اور پھر پلٹ کر نہیں پوچھتے کہ ان کی معصوم بچی پہ کیا گزر رہی ہے۔اس لحاظ سے یہ ایک مافیا ہے جو نہایت خاموشی سے باہمی مفادات کے اصولوں پہ کام کررہا ہے یعنی نسل در نسل چھوٹے غلاموں کے والدین اور ان کے مالکوں کے درمیان یہ ایک خاموش معاہدہ ہے کہ سپلائی جاری رہے گی، حکومت جو چاہے کہتی رہے۔ ان کے والدین سوائے مزید غلام پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے کہ اس مارکیٹ میںان کی انویسمنٹ ہی یہی ہے۔یہ غلام بچے بھی آخر بچے ہی تو ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ واپس والدین اور بہن بھائیوں کے پاس بھیج دئے جائیں جہاں ان کے بھی نخرے اٹھانے والا کوئی ہو۔ا ن میں سے کچھ اپنے مالک بچوں کی طرح اسکول جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ لہٰذا انہیں ایک ہی راستہ سوجھتا ہے کہ وہ کام میں ڈنڈی ماریں اور مالکوں کو اتنا تنگ کریں کہ وہ انہیں واپس چھوڑ آئیں۔یہاں شقی القلب والدین انہیں واپس لینے سے صاف انکار کردیتے ہیں کیونکہ وہ ان کے بدلے وصول کی جانے والی پوری رقم کہیں اڑا بھی چکے ہوتے ہیں۔وہ اس وقت تک ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں جب تک کوئی نیا مالک ہاتھ نہیں آجاتا۔ جہاں یہ معصوم بچے کسی جنس ارزاں کی طرح جگہ جگہ بکتے رہتے ہیں وہاں انہیں بظاہر کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے گھروں کے گندے اور جہالت بھرے ماحول سے دور ایک بہتر ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں کم سے کم انہیں فاقے نہیں کرنے پڑتے اگر ان کے مالکان بالکل ہی خوف خدا سے عاری نہ ہوں لیکن بچے کام کرنے کے لئے تو پیدا نہیں ہوتے ۔ اچھے گھروں میں گزارا جانے والا برا بھلا وقت ان کی نفسیات میں ایسی پیچیدگی پیدا کردیتا ہے کہ جب انہیں کسی بھی وجہ سے واپس جانا پڑتا ہے تو وہ آبائی ماحول میں ایڈجسٹ ہی نہیں ہوپاتے۔انہیں ماں باپ اور بہن بھائی اجنبی لگتے ہیں۔ انہیں ائیرکنڈیشنڈ کمروں، گاڑیوں میں سفر کرنے اور مہنگے ریستورانوں کے خوابناک ماحول کی لت پڑجاتی ہے۔ انسان ضروریات کا نہیں خواہشات کا ڈسا ہوا ہے ۔ ان کے اندر اپنے مالک بچوں کی شاہ خرچیوں اوران کے اٹھائے جانے والے نخروں کے خلاف غصہ ابلتا رہتا ہے جو کسی نہ کسی صورت باہر آتا رہتا ہے ۔ معصوم بچیاں ان ہی حالات اور پیچیدگیوں میں بلوغت کی عمر کوپہنچنے لگتی ہیں جو نفسیات کے اعتبار سے عمر کاانتہائی خطرناک موڑ ہے۔ موجودہ بے لگام اورجنسی آزادی کے دور میں جہاں میڈیا اور انٹرنیٹ نے ہر قسم کے ممنوعات کو ایک ہاتھ پہ ٹکا رکھا ہے ، یہ بچیاں اور بچے آسان شکار بن جاتے ہیں۔رہی سہی کثر ٹی وی کے وہ غیر حقیقی ڈرامے پوری کردیتے ہیں جہاں گھر کی کم سن ملازمہ خوش قسمتی سے مالکن بن بیٹھتی ہے۔قسمت آزمانے میں ہرج ہی کیا ہے ۔اپنے خوابوں کے تعاقب میں معصوم بچیاں گھاس کے وہ پھول بن جاتی ہیں جنہیں کوئی آنکھ بھر کے نہیں دیکھتا لیکن کچل کر گزر ضرور جاتا ہے۔