دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بعدمسلمانوں کے خلاف خوف کاماحول بدستور قائم ہے۔بظاہر خاموشی ہے لیکن علاقے میں پہنچ کرہرباضمیرشخص کادل خون کے آنسوروتاہے کہ جب وہ دیکھتاہے کہ دہلی کے مسلمانوں کے گھروں کے در و دیوار جلے ہوئے ہیں جبکہ ہندوئوں کے صاف ستھرے گھر بالکل اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی سبزی، پولٹری، موبائل فون کی دکانیں، منی چینجر اور ایک سوڈا فیکٹری جل کر راکھ ہو چکی ہیں جبکہ ہندئووں کی دکانوں کے شٹراب بھی اسی طرح کھل رہے ہیں جس طرح وہ پہلے کھل رہے تھے۔ گلیوں میں مسلمانوں کی جلی ہوئی گاڑیاں، ٹوٹے ہوئے شیشے، پھٹی ہوئی سکول کی کتابیں اور سڑی ہوئی روٹیاں بکھری پڑی ہیں۔دہلی کے ستم رسیدہ مسلمان خواتین وحضرات رورو کردہائیاں دے رہے ہیں کہ ہندوغنڈوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے اوران کی شناخت نہیں ہوپارہی تھی لیکن اسی فقرے کے ساتھ وہ ایک سوال کرتے ہیں، کہ ان سفاک بھیڑیوں نے مقامی مدد کے بغیر ہمارے گھروں کی کیسے نشاندہی کر لی۔بلوائیوں کو روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے پولیس ان سے ملی بھگت کر کے مسلمانوں کے قتل اورانکی املاک کوآگ میں بھسم کرنے پر بلوائیوں کی مدد بنی ہوئی تھی۔ پولیس کے ہمراہ ہجوم نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر گھروں کو لوٹا اور آگ لگائی۔ دہلی کے ان ستم رسیدہ مسلمانوں کاکہناہے کہ ہرطرف شوربرپاتھااور ’’جے شری رام کے نعرے لگائے جا رہے تھے‘‘بلاامتیازمسلمان خواتین ،بچوں ،بزرگوں اورنواجوانوں کو تلواریں ماری گئیں، کسی کی گردن کو تن سے جداکردیاگیا ،کسی کے پیر توڑ دیے گئے، کسی کا کندھا توڑ دیا گیا، کسی کا سر پھاڑ دیا گیا۔فسادات کے دوران لوگوں نے جو مناظر دیکھے ہیں وہ ان کے ذہنوں سے نکل نہیں پا رہے اور وہ انتہائی خوفزدہ ہیں۔ دہلی کے مسلم کش فسادات کے بعد مصطفی آباد کی عیدگاہ میں متاثرین کے لیے پہلا غیرسرکاری ریلیف کیمپ کھولا گیا ہے۔ ریلیف کیمپ میں ہر جانب اجڑی ہوئی بستیوں کے سہمے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں۔ ریلیف کیمپ کے منتظم ظہیرچودھری کہتے ہیں کہ یہاں مصطفی آباد، چاند باغ، شیو وہار، چمن پارک اور کھجوری خاص کے متاثرین نے پناہ لی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں دو ہزار افراد کی جگہ ہے۔ ہم نے وقف بورڈ اور دلی کی کیجروال حکومت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ نئے مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ اسی طرح کے مزید تین یا چارریلیف کیمپ کھولے جائیں گے۔ میرا اندازہ ہے کہ فسادات میں کم از کم 20ہزار مسلمان براہ راست ان مسلم کش فسادات میںمتاثر ہوئے ہیں۔ مسلم کش فساد سے متاثرہ پناہ گزینوں کی تعداد ایک ہزارتک پہنچ گئی ہے۔یہ ریلیف کیمپ رضاکار تنظیموں، وقف بورڈ اور دہلی حکومت کے تعاون سے کھولا گیا ہے۔پناہ گزینوں کے لیے خیمے لگائے گئے ہیں۔ رضاکار تنظیموں نے متاثرین کے لیے کپڑے، دوائیں اور دیگر اشیا کا انتظام کیا ہے۔ جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پاس کے کچھ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے بھی رضاکارانہ طور پر یہاں اپنا کیمپ لگا رکھا ہے۔بیشتر متاثرین یہاں کسی سامان کے بغیر آئے ہیں۔ اکثر افراد نے وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جو انھوں نے اپنے گھروں سے بھاگتے وقت پہن رکھے تھے۔ریلیف کیمپوں نے مسلم کش فساد سے سہمے ہوئے لوگوں کو مسلسل خوف اور ڈر سے وقتی طور پر باہر آنے کا موقع دیا ہے۔ یہاں ہر کوئی مظلوم ہے۔ ہر کسی کی اپنی درد میں ڈوبی ہوئی آپ بیتی ہے۔دہلی کے یہ مظلوم مسلمان یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اچانک مسلمانان دہلی کے خلاف اتنی نفرتیں کہاں سے آئیں؟ ان پر حملہ کیوں کیا گیا؟ کیا وہ انڈیا کے برابر کے شہری نہیں ہیں؟ واضح رہے کہ شمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں 23فروری2020 ء کو شروع ہونے والے مسلم کش فسادات میں اب تک کم از کم 50مسلمان شہید جبکہ ایک ہزارسے زائدمسلمان زحمی ہوئے ہیں۔ ایک رضاکار ثاقب خان کے مطابق نقصانات کے ابتدائی جائزے سے لگتا ہے کہ اس فساد میں مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ مکانوں، فرنیچر وغیرہ کو آگ لگائی گئی۔ دوکانوں اوربیکریز وغیرہ پر ٹارگٹڈ حملہ کیا گیا ہے۔ ایک رضا کار کاکہناہے کہ ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے میں سامان وغیرہ لوٹنے کے بعد گھروں کے سبھی دساویزات جلا دی ہیں۔یہ دستاویزات این آر سی اور این آر پی پرپیش کئے جانے کیلئے تیاررکھے گئے تھے اوربھارت میں این آر سی اور این آر پی کے حوالے سے ان کاغذات کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ جب یہ کاغذات جلا دیے گئے تو لوگوں کو کتنی پریشانی ہو گی وہ محتاج وضاحت نہیں۔ بلوائیوں نے بہت سے گھروں میں کاغذات جلائے ہیں۔دہلی کی کیجروال حکومت بھی مسلم کش فساد روکنے کیلئے کچھ نہ کر سکی جبکہ مودی حکومت کی شرارتیں اس امرکی طرف اشارہ تھیںکہ دہلی میں مسلم کش فسادات ہوسکتے ہیںاس سے قبل بی جے پی کے لیڈر کے نفرت انگیز بیانات تو ایک طرف صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گجرات کے قاتل نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی شکست کوذلت سمجھ کردہلی کے مسلمانوں سے اپنی شکست کابدلہ لینے کی ٹھان لی تھی اوردہلی مسلم کش فسادات کرانے کاموڑ بنارکھاتھا۔ پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’’جے شری رام کا نعرہ‘‘ ہندو ہجومی قاتلوں کا جنگی نعرہ بن چکا ہے جبکہ پولیس کاجانبدارانہ رویہ پوری طرح بے نقاب ہوتاجارہاہے ۔دہلی میں مسلم کش فسادات کے دوران ایسی بے شمار شہادتیں موجود ہیں کہ مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا اور پولیس نے نہ صرف یہ کہ کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ ایسی شہادتیں بھی موجود ہیں کہ انھوں نے بلوائیوں کی مدد بھی کی ہے۔اسے اس طرح سمجھ لیجئے گا کہ دہلی کے علاقہ کھجوری خاص کی گلیوں میںکم ازکم 200گھر اور دوکانیں ہیں جن میں 20فیصد مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ یہ معلوم کرنا کہ یہ گھر کسی ہندو کا ہے یا مسلمان کا، ناممکن ہے۔ ان گھروں اور دکانوں کی دیواریں بھی سانجھی ہیں اور چھتیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ بلوائیوں نے صرف اورصرف مسلمان کے گھروں اور دکانوں کو انتہائی آسانی کے ساتھ نشانہ بنایا۔