ملک بھر میں آٹے کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے‘ ایک طرف وفاقی وزیر تحفظ خوراک خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ ملک میں گندم کے بحران کا تاثر غلط ہے کیونکہ کئی لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس محفوظ ہے اور دوسری طرف حکومت آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لئے آئندہ ماہ کے وسط تک 3لاکھ ٹن گندم درآمد کر رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جو گندم ہم 30روپے کلو کے حساب سے برآمد کرتے ہیں وہ اب 60سے 70روپے کلو تک درآمد کی جائے گی۔ گندم کے ملوں میں جانے کے عمل اور آٹے کو مارکیٹوں میں لانے تک مارچ کا مہینہ آ جائے گا جس کے اواخر تک ویسے ہی ہماری اپنی گندم کی فصل کٹنے کوتیار ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے تردد کا فائدہ کیا ہے؟ کیا اس سے بحران ختم ہو جائے گا۔ جب مارچ تک درآمدی گندم ہی مارکیٹ میں آ جائے گی تو ہمارے کاشتکار اپنی گندم کا کیا کریں گے، کیا ان کی ساری محنت اکارت نہیں جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل بحران گندم کا نہیں ‘ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا ہے۔ اب جب کہ گندم بھی وافر موجود ہے‘ آٹے کے ٹرک بھی بھرے کھڑے ہیں تو آٹے کی بڑھتی ہوئی مصنوعی قیمتوں پر قابو پایاجائے۔ ملکی معیشت کو ہم کس طرف لے جا رہے ہیں‘ بحران کو بڑھایا جا رہا ہے اس کا حل نہیں نکالا جا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گندم درآمد کر نے کی بجائے موجود گندم کی صحیح منصوبہ بندی کر کے آٹا وافر مقدار میں مارکیٹوں میں لایا جائے اور بڑھتی ہوئی مصنوعی قیمتوں پر قابو پایا جائے اور غیر ضروری طور پر گندم درآمد کرنے کے بجائے ڈیڑھ ماہ بعد آنے والی اپنی گندم کی فصل کا انتظار کیا جائے اور کاشتکاروں کو گندم درآمد کرکے نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔