چھپکلی کو شاید اس کے بڑوں نے یہ نصیحت کی ہے کہ بچہ کہیں پھنس جائو اور کچھ نہ سوجھے تو جہاں ہو وہاں سے نیچے چھلانگ لگا دینا ایک دفعہ تھرتھلی مچ جائے گی۔ چھپکلی اس نصیحت پر پوری مستقل مزاجی سے عمل کرتی ہے ۔یا کم از کم ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ جب جب اس نحش مخلوق سے ہمارا واسطہ پڑا اس کا طرز عمل یہی رہا۔ اب کل ہی کی سنئے ! بیگم صاحبہ نے کچن سے آواز لگائی کہ، ’’ یہ بچوں کے کمرے میں چھپکلی ہے !! ذرا دیکھئے گا ‘‘۔اس مختصر ، معمولی اور بظاہر بے ضرر ’ ارشاد ‘ کی تعمیل میں کیا مضمرات ہیں نیز اس کی بجآوری میں ہمارے کیا تحفظات ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ ان یار لوگوں کو بخوبی ہو سکتا ہے جنہیں ایسی صورتحال درپیش رہتی ہے۔ اتوار کا روز تھا اور ایک ایسے وقت پر جب ناشتہ کرتے ہی کوئی گھنٹہ بھر سستانے کے بعد اب ہم نیند کرنے کی باقاعدہ تیاری باندھ رہے تھے کہ یہ جان لیوا حکم صادر ہوا ۔اب کہاں کی نیند ، کیسا چین !! استراحت کا موڈ ہو تو ہمیں کسی کی آواز بھی اچھی نہیں لگتی ، چہ جائیکہ بیگم صاحبہ کی !! اس پہ مستزاد یہ کہ اس آواز میں ایسا مکروہ کام بھی کہا گیاہو ۔ خیر ! اُٹھ بیٹھے اور کُچھ ہم ہی جانتے ہیں کہ کس دل سے اُٹھے آئندہ پیش آنے والے تمام مراحل یکلخت ذہن میں کُوند گئے ۔ چھپکلیوں کے خلاف ہماری جنگوں کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنے کہ ہم پرانے ہیں ۔لیکن ہمیں اعتراف ہے کہ ان ’’ پانی پتی ‘‘ جنگوں میں ہمیشہ ہمیں ہی ’’ پانی پانی ‘‘ ہونا پڑا ہے ۔ بہرحال ! تعمیل ِ حکم میں ہم اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اب ہمارا رُخ اس کمرے کی جانب تھا جہاں ابھی ایک محاذ کھلنے والا تھا۔ایسے موقعوں پر ہمیشہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کو پتہ نہ چلے اور اُن سے بالا بالا ہی معرکہ سر ہو جائے ۔ لیکن ! افسوس ! بچے کبھی بے خبر رہے اور نہ کبھی معرکہ ہی سر ہو سکا ۔ چنانچہ بچے ہمیشہ پہلے ہی سے موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ویسے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر بندہ پہلے ہی گھر والوں کے سامنے اعتراف کر لے کہ اُسے چھپکلی ، کاکروچ اور اس قبیل کے دیگر واہیات جانوروں سے ذرا ڈر شر لگتا ہے ! ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بندہ موقع پر نہایت بھونڈے انداز میں پکڑا جاتا ہے ۔زبان گنگ ہو جاتی ہے اور دیگر اعضاء بولنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ہم نے بھی چونکہ کبھی اعتراف نہیں کیا چنانچہ اکثر رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔ محاذ والے کمرے کے قریب پہنچے تو لاشعوری طور پر پہلا کام یہ ہوا کہ ہم نے بائیں ہاتھ سے شلوار کو گھٹنوں تک اُٹھا لیا ! حالانکہ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے فرش پر کوئی پانی وغیرہ موجود نہیں تھا ۔ یہ محض ایک اضطراری عمل تھا۔موقعہ پر پہنچتے ہی ہم نے اس ’’ سامانِ حرب ‘‘ کا جائزہ لیا جو بچوں نے وہاں مہیا کر رکھا تھا۔سامان میں جھاڑو ، دو عدد وائپر اور جالے اتارنے والی ڈانگ شامل تھی۔ہم نے دیکھا کہ سب بچے کمرے کے ایک کونے میں موجود ہیں ۔ان کی انگلیاں چھپکلی کی طرف اٹھی ہوئی تھیں ، آنکھیں خوف سے کھلی ہوئیں اور آواز بند۔دیکھا تو ایک بڑے سائز کی دبنگ چھپکلی چھت پر پنکھے کے پاس محو استراحت تھیںہم نے لپک کر ایک بچے کے ہاتھ سے ڈانگ پکڑلی ۔۔ لیکن صاحبو !! ڈانگ یا چھڑی ہاتھ میں آجانا ایک بات ہے اور اس کے استعمال کی ہمت ہونا ایک بالکل دوسری بات ہے۔ ہمیں اس وقت یہی مرحلہ درپیش تھا ۔ بہرطور ! ہم تھوڑا آگے بڑھے ۔۔سب کچھ ٹھیک تھا بس ٹانگیں ذرا ساتھ نہیں دے رہیں تھیں۔ابھی ہم سوچنے ہی لگے تھے کہ نجانے کیا ہوا ۔۔دفعتاً چھپکلی نے نیچے چھلانگ لگا دی۔۔۔صاحب !!یہاں تک کے واقعات تو ہماری ہوش و حواس میں پیش آئے چنانچہ ہم خود ان کے مستند راوی ہیں۔ لیکن چھپکلی کی چھلانگ کے بعد کے واقعات کی روایات میں قدرے اختلاف ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک تو کمرے میں کئی عینی گواہ موجود تھے لیکن اب مجال ہے کہ وہاں " Any " گواہ رہ گیا ہو۔ پلک جھپکنے میں میدان خالی ہو گیا تھا۔ہر بچے کو محسوس ہوا تھا کہ چھپکلی نے اُس کے اوپر چھلانگ لگائی ہے جبکہ ہمیں تو یقین تھا اکہ اس نے یہ ’ ناپاک ‘ حرکت ہمارے اوپر کی ہے۔بہرحال ! بہت محتاط اندازہ لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ چھلانگ کے ساتھ ہی کمرے سے نکلنے کے لئے اک ’ ہڑبونگ ‘ قسم کی بھگدڑ مچ گئی تھی۔اور جب ہم بچوں کو نہ ڈرنے اور واپس آنے کی تلقین کر رہے تھے تو اس وقت خود گھر کا بیرونی گیٹ کراس کر رہے تھے۔کمرے میں صرف سب سے چھوٹا بچہ ہی کھڑا رہ گیا تھا ۔ وہ ابھی اتنا ’’ سمجھ دار ‘‘ نہیں ہوا تھا کہ ڈر جاتا ۔ جب ماحول قدرے ’’ شانت ‘‘ ہوا اور زندگی نارمل ہوئی تو ہماری محتاط واپسی ممکن ہو سکی۔ہم نے دیکھا کہ وہ ناسمجھ مُنّا اب بھی وہیں کھڑا تھا۔لیکن چھپکلی غائب تھی۔ اب آثارو قرائن اور مُنّے کے اشارے یہ سمجھا رہے تھے کہ چھپکلی نے بیڈ پر ’ لینڈ ‘ کیاتھا اور پھر اسے اپنی ’ راجدھانی ‘ خیال کرتے ہوئے کمال بے نیازی اور سکون سے اس پر دو ایک چکر لگائے اور پھر خراماں خراماں پردے کے پیچھے کھڑکی سے باہر غائب ہو گئی تھی۔ مشن مکمل ہو چکا تھا۔ہم نے سامانِ حرب سمیٹا ۔ بچوں کو حسبِ معمول ’ با حوصلہ ‘ زندگی گزارنے پر ایک مختصر سا لیکچر دیا اور کمرے سے باہر نکل آئے۔ باہر نکلے تو کہیں سے بیگم صاحبہ کی آواز آئی ، ’’کیا بنا ‘‘ ْ ْ ؟ ۔ہم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا ، ’’ بھاگ گئی کم بخت !! ڈرپوک کہیں کی ! ذرا ٹھہرتی تو بتاتے اُسے ۔‘‘ ہمارے اس تبصرے پر بیگم اور بچوں کو نجانے کیوں اختلاف تھا جس کا اظہار انہوں نے ہنسی سے کیا ۔ بہرحال ! ہم تو اختلاف رائے کی بھی قدر کرتے ہیں اگرچہ وہ بے جا ہی کیوں نہ ہو۔رہی ہنسی کی بات تو عظیم انسانوں پر ہنسنا لوگوں کی پرانی ریت ہے۔ ٭٭٭٭٭