سچی بات ہے کہ عوام کے ہر طبقے میں ایک بددلی اور مایوسی کی کیفیت ہے اس نظام زر اور روز افزوں بڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں‘ انسان کی بے توقیری ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ لیکن حکومتوں میں ایسی بے حسی کا مظاہرہ بھی کم کم ہی دیکھا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ جب پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہیں کہ لوگ مشکل حالات کے لئے تیار رہیں تو وہ کن لوگوں سے اپنے تئیں مخاطب تھے۔ یقینا کاروباری طبقہ۔ جسے ہم خوشحال طبقے میں شمار کر سکتے ہیں۔ ان کے حالات کی خرابی کا مطلب یقینا یہ نہیں کہ ان کے چھابے سے روٹی غائب ہو جائے گی۔ اور انہیں پیٹ بھرنے کے لالے پڑ جائیں گے۔ جو حال اس حکومت نے غریب کا کیا ہے وہ عالمی مالیاتی اداروں کے تربیت یافتہ معاشی ماہرین‘ ٹھنڈے کانفرنس ہالوں میں بیٹھ کر نہیں جان سکتے۔ ان کے لئے مہنگائی اور مزید مہنگائی سے پیدا ہونے والے سخت حالات کا مطلب ہے دو کی بجائے ایک وقت کی روٹی۔ اگر دو وقت روٹی کھانی ہے تو ایک وقت کوئی دال سبزی اور دوسرے وقت اچار یا پیاز مرچوں کی چٹنی۔ زندگی مگر صرف پیٹ کا ایندھن بھرنا ہی تو نہیں ہے۔ بیماری میں دوا دارو بھی چاہیے۔ پہننے کو تن پر کپڑا بھی چاہیے۔ بچے ہیں تو ان بڑھتے بچوں کی سو ضروریات بھی ہوتی ہیں۔ غریب والدین کے پاس ایسے میں زندگی بسر کرنے کا بس ایک طریقہ رہ جاتا ہے کہ خواہشات اور ضرورتوں کے گلے گھونٹتے رہیں۔ یہ جو نعرے ہیں تعلیم سب کے لئے اور صحت سب کے لئے نرا دھوکہ فریب اور جھوٹ! انصاف کے دعوے صاف اور شفاف چلنے کے وعدے‘ غریب اور امیر کا ایک پاکستان بنانے کی بڑھک ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دس ماہ کے بعد محض جھوٹے وعدوں کا پلندہ دکھائی دیتی ہے۔ عوام کے مسائل سے جس قدر بے حسی کپتان کی حکومت برت رہی ہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ میں متوسط طبقے کی بات نہیں کر رہی جو اگرچہ مشکل میں ہے۔ مگر کسی نہ کسی طور اپنے بچوں کی سکول فیس بھی دے رہا ہے۔ بیماری میں دوا بھی لے لیتا ہے۔ خوشی غمی کے تہوار اگرچہ اس کے بجٹ کو تلپٹ کر کے رکھ دیتے ہیں لیکن وہ پھر بھی کسی طور زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہا ہے۔ اصل قیامت تو غریب پر ٹوٹی ہے۔ جنہیں اب بیماری میں سرکاری ہسپتالوں سے دوا تک نہیں ملتی۔ پہلے ہی کوئی آئیڈیل صورت حال نہ تھی۔ بیماری کی تمام دوائیں سرکاری کھاتے سے نہیں ملتیں تھیں۔ ادھ پچد دوا دے کر ٹرخا دیا جاتا۔ باقی کی باہر سے خریدنا پڑتی تھیں۔ غریب کی تسلی اتنے سے بھی ہو جاتی تھی۔ کچھ نہ کچھ غریب کا سرکاری ہسپتالوں میں آسرا ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ حال ہے کہ سرکاری ہسپتال جہاں پہلے دوا مل جاتی تھی وہاں غریب چلا جائے تو سرکاری اہلکار اسے ڈانٹ پھٹکار کر کہتے ہیں کہ اب اس حکومت نے دوائیں بند کر دی ہیں۔ جائو جا کر بازار سے خریدو۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ میرے گھر کام کرنے والی ملازمہ کے چار سالہ بیٹے کو سیڑھیوں سے گر کر آنکھ پر اور سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ دونوں آنکھیں سوج کر بند ہو گئیں۔ بچہ تقریباً بے ہوشی میں چلا گیا تھا ‘جناح ہسپتال آئی سی یو میں اس کا بچہ 15روززیر علاج رہا کچھ مدد امداد ہم نے بھی کی۔ دوائیں کچھ باہر سے خریدنا پڑتی تھیں۔ باقی ہسپتال سے ملتیں۔ آئی سی یو میں چار سال کے غریب مریض بچے کی ڈاکٹروں اور نرسوں نے مثالی دیکھ بھال کی۔ بچے کی حالت کے پیش نظر اسے آئی سی یو کے علیحدہ کمرے میں رکھا گیا۔ آئی سی یو کے مریض کی خصوصی دیکھ بھال ہوئی بالآخر بچہ تندرست ہو گیا۔ بعد میں فالو اپ چیک کے لئے بھی وہ جاتی رہی اور آج یہ صورت حال ہے کہ سردرد کی گولی بھی ہسپتالوں سے مفت نہیں مل رہی۔ وارڈ میں بستر نہیں ملتا۔ غریب باہر برآمدوں میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ہم اخبار نویس کالم نگار اور حالات کا تجزیہ کرنے والے عموماً مسائل ہی کو خبر سمجھتے ہیں اور اسی پر بات کرتے ہیں اسی پر لکھتے ہیں ‘جناح ہسپتال میں غریب بچے کے مثالی علاج کے اس واقعے نے اس وقت مجھے ایسا متاثر نہیں کیا کہ میں کسی کالم میں تذکرہ کرتی اور پنجاب حکومت کے انصرام کی تعریف کرتی۔ یوں بھی حکومتوں کی تعریف کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم تو مسائل کی نشاندہی کرنے کے لئے ہیں۔ یقینا اس وقت بھی ستر فیصد عوام کے ایسے ہی مسائل تھے کوئی آئیڈیل صورت حال نہ تھی غریب اس وقت بھی زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹ رہے تھے لیکن اب جب حالات کا تقابل کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تبدیلی سرکاری کی حکومت میں عوام زیادہ رل گئے ہیں، اور افسوس یہ ہے کہ حکومتی نمائندوں اور حکومتی کارپردازوں میں احساس کی رمق تک نہیں۔ گیس پٹرول‘ آٹا‘ دال‘ روٹی کی قیمتیں پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہیں۔ عوام اس مہنگائی پر تڑپ اٹھے ہیں اور اپوزیشن اسی صورت حال کو سیاسی طور پر کیش کروا رہی ہے۔ یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے اب ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر غریب کے غم میں گھلتے اور تقریریں کرتے نظر آتے ہیں۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی ٹیم کی سرزنش کی ہے کہ میڈیا پر حکومت کا موقف بہتر طریقے سے بیان کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اپوزیشن کا سکور ٹاک شوز میں بہتر ہے۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ ٹاک شوز میں جا کر حکومت کا بیانیہ دھرائیں اور اتنا دھرائیں کہ عوام کی یادداشت کا حصہ بن جائے۔ بیانیہ یہی ہے دس برسوں میں 24ارب ڈالر قرضہ لیا گیا۔ اب حکومت وہ قرضے اتارے کہ عوام کے لئے روٹی سستی اور زندگی آسودہ کرے! وزیر اعظم صاحب ! آپ کا یہ بیانیہ ستر فیصد عوام کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ یوں بھی غریب کو معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کہاں سمجھ آتے ہیں۔ اسے تو بس اتنا ہی سمجھ آتا ہے کہ زندگی سے جڑی اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونی چاہیے۔ روٹی کپڑا ‘دوا‘ مکان گریہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!