ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے عرصۂ صدارت میں پورا ایک سال باقی تھا کہ 4نومبر 2019ء کوامریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دستخطوں سے ایک دستاویز جاری ہوئی جس کا عنوان تھا ’’ایک آزاد اور کھلا بحرِ ہند و بحرالکاہل‘‘ (A free and open Indo-Pacific)۔ تیس صفحات پر مشتمل اس لائحہ عمل کا خواب نومبر 2017ء میں ویت نام میں ہونے والے پینتیس ممالک کے اجلاس میں دیکھا گیا تھا۔ یہ تمام ممالک ’’ہند چینی‘‘ علاقے میں امریکہ کے حلیف اور دوست قرار دیئے گئے تھے، جن کی امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم دو ہزار ارب ڈالر تھا۔ان ممالک میں علاقائی تنظیم ’’آسیان‘‘ (Asean)کے دس ممالک برونائی، برما، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام کا خاص طور پر تذکرہ ہے، جہاں امریکہ کی براہ راست سرمایہ کاری271ارب ڈالر ہے،یہ امریکہ کی چین اور جاپان میں مشترکہ سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔ اس دستاویز کا اہم ترین حصہ، امریکہ اور بھارت کی عالمی اور علاقائی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شراکت (Partnership)کا اعلان ہے۔اس میں خطے میں اہداف کے حصول کے لیے چار ممالک کے اتحاد کا اعلان کیا گیاہے۔ یہ ممالک امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت ہیں۔ اہداف کو خوش کن اصطلاحات کے لبادے میں لپیٹا گیاہے، جبکہ اس اتحاد کا اصل ہدف چین کی بڑھتی ہوئی معاشی، عسکری اور تجارتی قوت کو روکنا ہے۔ دستاویز کے چار اہداف تھے۔(1) معاشی خوشحالی کی طرف پیش رفت) (2امن و سکیورٹی کا قیام) (3 انسانی سرمائے (Human Capital)کی نشونما اور) (4بہترین حکومتی نظام کا قیام۔ اصل اتحاددراصل ان چار ممالک کا ہی ہے اور ان چاروں اہداف میںبھی اصل دو ہی ہیں، ایک ’’امن و سکیورٹی‘‘ اور دوسرا’’ بہترین حکومتی نظام‘‘ کا قیام۔ یہی دونوں اہداف ہیں جن کا سہارا لے کر اس خطے کے باقی تینتس ممالک میںامریکہ اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانا اور ان کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دنیا میں ایسے اتحادوں کا فیشن پہلی جنگِ عظیم میں شروع ہوا، جنگ ہوگئی، پھر دوسری جنگِ عظیم سے پہلے ایک اور اتحادبنا اور پھر جنگ ہوئی۔لیکن ان دونوں جنگوں کے بعد دنیا ایک منافقانہ ’’سرد جنگ‘‘ کے عہد میں داخل ہوگئی۔کیمونسٹ بلاک اور سرمایہ دارانہ بلاک میںمنقسم دنیا میںبھی’’ نیٹو ‘‘اور ’’وارسا‘‘جیسے اتحاد وجود میں آئے، لیکن یہ اتحاد غیر اعلانیہ جنگوں اور ایک دوسرے کے اتحادیوں کو اندرونی طور پر معاشی، سیاسی اور انتظامی طور پر تباہ کرنے سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکے۔ ان طاقتوں کی حالت اس مشہور مصرعے کی طر ح تھی’’دلوں میں بغض رکھتے ہیں بظاہر دوستانہ ہے‘‘۔ افغانستان میں سویت یونین کی افواج کے داخلے اور روس کی پسپائی نے دنیا سے سرد جنگ کا باب بھی مکمل طور پربند کر دیا۔ اب جو کچھ تھا امریکہ ہی تھا۔اسی کا ’’سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت‘‘ اور اسی کا ’’عالمی مالیاتی نظام‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد افغانستان اور عراق پر حملوں کے وقت بھی اتحاد بنے مگر وہ عالمی اتحاد تھے، یعنی پوری دنیا نہتے اور کمزور ممالک کے خلاف متحد ہوگئی۔ ملامحمد عمرؒ کا افغانستان اور صدام حسین کا عراق۔ عالمی غنڈہ گردی اور دہشت کا یہ بیس سالہ دور جو 26دسمبر 1991ء کو سویت یونین کے خاتمے سے شروع ہوا تھا اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اوردنیا آج بالکل ویسے ہی دو اتحادیوں میں تقسیم ہوگئی ہے جیسے 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم اور1941ء میں دوسری جنگِ عظیم میں ہوئی تھی۔جب اس طرح کے اتحاد بننے لگیں جو دینا کو دوحصوں میں تقسیم کر دیںتو چاروں جانب تجزیئے کا موضوع صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ کون سا اتحادعسکری طور پر زیادہ طاقتور ہے۔ اگردونوں کے درمیان اچانک خطے میں جنگ چھڑ جائے تو پھرکس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ گذشتہ دونوں بڑی جنگوں کے دوران امریکہ کو ایک علاقائی سہولیت میسر تھی کہ وہ جنگ کے اصل میدانوں سے بہت دور تھا اور اس کے دونوں جانب دو بڑے سمندر ’’بحرالکاہل‘‘ اور ’’بحرِ اوقیانوس‘‘ واقع تھے۔ جہازوں کی اڑانیںابھی تک چند سو کلومیٹر تک ہی محدود تھیں، میزائل اور ڈرون نامی ہتھیار بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ایٹم بم گرانے کے لیے بھی پائلٹوں کو خود ہیروشیما اور ناگا ساکی پر پرواز کرنا پڑی تھی۔ لیکن اب امریکہ سمیت دنیا کا کوئی شہر، قصبہ، یا جزیرہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی میزائل کے نشانے پر نہ ہو۔ یعنی اگر ایک دفعہ ’’آتش بازی‘‘ شروع ہوگئی تو چند منٹ کے وقفوں کے بعد جب آسمان میزائلوں کی روشنیوں والے جال سے برآمد ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ دنیا کے اکثر شہر آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہوں۔ ایسے خطرناک اسلحے پر بیٹھی ہوئی عالمی طاقتیں اس وقت جس میدانِ جنگ میں کود چکی ہیں اس کا انجام جزوی نہیں بلکہ مکمل تباہی ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے اس اتحاد اور امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلان کے بعد دنیا بھر کی یونیورسٹیوںمیں دونوں جانب کی عسکری اور معاشی طاقتوں کے حوالے سے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم ادارہ آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کا امریکی سٹڈی سنٹر ہے۔ اس نے اگست 2019ء میں ایک جامع رپورٹ مرتب کی اور مشورہ دیا کہ خطے میں جنگ کو کیسے روکا جاسکتا ہے، کیونکہ جنگ کی صورت میںچین کی ابھرتی ہوئی عسکری قوت کا مقابلہ بہت مشکل ہوگا۔سو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ایسی تھی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو ایک لمبے توقف میں ڈال گئی۔ ٹرمپ ویسے بھی امریکہ کو لاحاصل اور کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں سے نکالنا چاہتا تھا۔ لیکن گذشتہ ایک سوسالہ طاقت کا نشہ امریکی اسٹبلشمنٹ کو چین نہیں لینے دیتا اور امریکی اسلحہ کی تجارت کے کارپردازوں کو منافع خوری کی حرص میں جکڑے ہوئے سال بہت یاد آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوبائیڈن کی آمد کے بعد نسبتاًشکست خوردہ امریکہ نے ایک بار پھر انگڑائی لی ہے۔ افغانستان، شام اور عراق کی سرزمین ان کے فوجیوں کے بوٹوں اور لاشوں کے تابوتوں سے ایک بار پھرتر ہونے جارہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ تو ایک مستقل محاذ ہے، لیکن بحرِ ہند و بحر الکاہل (Indo-Pacific)کے محاذ کے اہم ترین ملک برما میں امریکہ نے گذشتہ چالیس سال سے جوچھیڑ خانی شروع کر رکھی ہے اسے مزید تیز کردیا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر اس کے خلاف 1988ء سے پابندیاں تھیں، چین کی مسلسل تیس سالہ خاموشی تھی اور امریکی تھنک ٹینک نے ’’آن سان سوچی‘‘ کو ایک علاقائی اور عالمی جمہوری ہیروئن بنا کر برما میں فوج کو مجبور کر کے اسے اقتدار پر بٹھایا دیا گیا۔ لیکن پچاس سالہ فوجی حکومت اور آئین میں فوج کے پچیس فیصد حصے نے برما کو چین سے دور نہیں جانے دیا۔ چین نے اپنی تجارتی راستوں کی بندش توڑنے کے لیے سی پیک کی طرح "BCIM" منصوبہ برما سے ہی شروع کیا تھا، اس منصوبے کی وجہ سے چین کی بحرِ ہند میں براہ راست رسائی ممکن ہونا تھی۔ چین کی اس وقت برما میں 21ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اور جس طرح پاکستان کا’’ سی پیک‘‘ اس کی مغربی شہ رگ ہے ویسے ہی ’’بی سی آئی ایم‘‘ اس کی مشرقی شہ رگ ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں آن سان سوچی کی پارٹی بھاری اکثریت سے جیتی تھی اور 88فیصد بدھ آبادی کامذہبی کارڈ ’’ہندوتوا‘‘ کی طرح استعمال ہوا تھا۔ روہنگیا مسلمانوں کو برما کی سلامتی کا دشمن قرار دے کر ان پر بہت ظلم و دہشت کا بازار گرم کیا گیا تھا۔ اس فضا میں یکم فروری کو سیاسی حکومت نے پارلیمنٹ سے اپنی توثیق کرنا تھی، یہ مرحلہ ایسا تھا جو برما کی سیاست کو چین سے نکال کر امریکی اتحاد کے تابع کر سکتا تھا، یوںدو دن قبل فوج نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا جو بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ نے آنے والی حکومت سے لگارکھی تھیں۔ خطے میں چین نے اب جارحانہ فیصلوں کا آغاز کر دیا ہے۔ جو میدان آئندہ گرم ہونے والا ہے وہ وہی ہے جسے ’’برصغیر پاک و ہند‘‘ کہتے ہیں۔ جس میں برما کے رنگون سے لے کر افغانستان کے کابل و قندھار تک سب شامل ہیں۔اس تناظر میں چند لمحے پاکستان پر غور ضرور کیجئے۔