پارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں گردشی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح 755ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ سابق حکومت نے جب 500ارب روپے کے گردشی قرضے ادا کئے تھے اس وقت بھی مختلف حلقوں کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھاکہ اگر حکومت ترسیل کے نظام کو اپ گریڈ اور بجلی چوری روکنے کے مناسب اقدامات نہیں کرتی تو کچھ عرصہ بعد ہی یہ مسئلہ پھر سر اٹھا لے گا۔ حکومت نے 17فیصد لائن لاسز کو مناسب حد تک کم کرنے کا دعویٰ اور نئی ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کا بھی فیصلہ کیاتھا مگر بدقسمتی سے تمام تر توجہ مطلوبہ اہداف کے بجائے درآمدی کوئلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹس لگانے پر مرکوز رہی جن کے بارے میں گزشتہ روز پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ایک معزز رکن نے استعمال شدہ پلانٹس کو رنگ روغن کر کے پاکستان میں نصب کرنے کی بات کی ہے۔ حالانکہ یہ پلانٹس پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے دور وزارت اعلیٰ کے دوران لگائے گئے تھے۔ یہ حکومتی بے حسی اور مبینہ کک بیکس کا ہی شاخسانہ ہے کہ گردشی قرضے ایک بار پھر 755ارب سے تجاوز کرگئے ہیں اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو رواں برس موسم گرما میں بجلی کی قلت ایک بار پھر بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت اس مسئلہ کے پائیدار حل کے لئے مناسب قابل عمل حکمت عملی مرتب کرے تاکہ بجلی کی چوری کے تدارک اور نادہندگان سے وصولیوں کو یقینی بناکر لوڈشیڈنگ سے مستقل نجات ممکن ہو سکے۔