پاکستان نازک دور سے نکل کر مزاحیہ دور میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ وزیراعظم پانچ سال ہنساتا ہی رہے گا۔عجیب وزیر اعظم ہے۔ اسے خبر ہی نہیں ڈی پی او تبادلہ کیس میں آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا۔بھئی ساری خدائی ایک طرف ۔باقی محاورہ سب اپنے ذوق کے مطابق پورا کرلیں اور ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ٹھٹھا لگائیں۔ ایک سابق وفاقی وزیر نے ازراہ تفنن کہا: دیکھتے ہیں یہ حکومت گیارہ کھرب روپے کا گردشی قرضہ کیسے ادا کرتی ہے۔ کاش وزیر موصوف چین میں ہوتے۔ اول تو وزیر بننے کی نوبت نہ آتی،قسمت کے زور پہ بن بھی جاتے تو بیان دینے کے قابل نہ رہتے۔ کسی پاور پلانٹ کی بنیاد میں اینٹ کی جگہ دھر دیے جاتے اور گردشی قرضوں کی طرح ہر بل میں ان کا خون بھی گردش کررہا ہوتا۔کوئی پوچھے کہ کہاں تو معیشت کا پہیہ اس تیزی سے گھوم رہا تھا کہ نظر نہ آتا تھا اور کہاں یہ حال ہے کہ اپنے دور میں گلے میں ڈالے گردشی قرضوں کے بارے میں اس حکومت کو چیلنج کیا جارہا ہے کہ ہم نے تو لٹیا ڈبو دی تھی اب تم بچا کے دکھائو ۔گویا اس صورتحال کی ذمہ دار یہی حکومت ہے جس کے ہاتھ کی مہندی بھی نہیں اتری اور گھونگھٹ بھی نہیں کھلا۔کیا سنجیدگی ہے جو اس قوم پہ طاری ہے جسے ادراک ہی نہیں کہ اس کے وسائل اور خزانے کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ کیا ڈھٹائی ہے جس کے ساتھ بیانات داغے جارہے ہیں ۔اور کیا ترجیحا ت ہیں جو اس قوم کے معزز صحافیوں عرف رائے عامہ کے راہبروں نے اختیار کررکھی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ملک کو جس فوری نوعیت کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے وہ دگرگوں معیشت ہے۔معاشی ارسطوئوں پہ مشتمل گزشتہ حکومت جہاں اور بہت سے کارنامے انجام دے گئی ان میں صرف آخری گیارہ ماہ میں نو ارب اٹھانوے کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ جبکہ کمرشل بینکوں سے ساڑھے تین ارب ڈالر کا قرضے کا بوجھ عوام کی گردنوں پہ ڈال گئی۔ توانائی کے شعبے میں گیارہ کھرب سے زائد گردشی قرضے واجب الادا ہیں۔اکتیس جولائی یعنی گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال کے آغاز تک ان گردشی قرضوں کا حجم چھ سو ارب تک پہنچ گیا تھا جبکہ صرف آخری ماہ میں اس میں تیس ارب روپے کا اضافہ ہوا۔اس سے قبل یہ قرض چکانے کے لئے بینکوں سے 582 ارب روپے کی ادائیگیاں پاور پلانٹس کو کی گئیں جو اب بینکوں کو واپس کرنی ہیں۔اس طرح مجموعی طور پہ ان گردشی قرضوں کی مالیت 11 کھرب 88 ارب روپے ہوگئی ہے۔ اب بینک جذبہ حب الوطنی کے تحت فی سبیل اللہ قرض حسنہ تو دیتے نہیں کہ ہنس کر ٹال دیا جائے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ گزشتہ حکومت نے 500ارب سے زائد گردشی قرضوں کو پبلک ہولڈنگ اکائونٹ ظاہر کرکے اس پہ بینکوں سے قرض لیا تھا جس پہ سود ادا کیا جاتا رہا اصل قرضہ تو گردشی ہے۔ادھر سے ملے گا تو ادھر ادا کردیں گے ۔یوں بھی بینکوں نے کونسا جیب سے قرضہ دینا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ایسے ایسے راجہ جی حکومت کرگئے ہیں جنہوں نے رینٹل پاور کمپنیوں کو قومی خزانے سے ایڈوانس دے دیا تھا۔ وہ رینٹل پاور کمپنیاں ہماری معیشت کی پانی بھری کشتی میں پھولی ہوئی لاش کی طرح تیرتی رہیں۔ان آئی پی پیز یا بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو حکومت نے صرف بینکوں سے ہی قرض لے کے ادائیگی نہیں کی بلکہ نوٹ بھی چھاپے اور آئی ایم ایف سے قرضے بھی لئے کہ یہ آسان اور فوری حل تھا۔اس کے بعد انہیں کونسا ملک میں رہنا تھا۔وزیر خزانہ کو لندن میں جمعہ کی نماز پڑھنی تھی اور وزیر اعظم کو بقیہ عمر لندن فلیٹوں میں یاد اللہ میں گزارنی تھی۔ابھی تو مسئلہ یہ تھا کہ رکوڈک کیس میں ٹیتھیان کمپنی کی طرح یہ آئی پی پیز عالمی عدالت میں جاکر الٹا تاوان وصول نہ کر لیں۔ کوئی عالمی عدالت ان کمپنیوں سے یہ کبھی نہیں پوچھتی کہ جو سو کلو واٹ بجلی بنانے کے لئے 24 کلو گرام فرنس آئل کیوں استعمال ہورہا ہے جبکہ ساری دنیا بشمول بھارت میں بجلی کی اتنی ہی مقدار 14 کلو گرام فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے۔اسی طرح گیس کے12ہزار تھرمل یونٹ سے بجلی کا ایک یونٹ بنایا جارہا ہے جبکہ بھارت میں ایک یونٹ بجلی 5 ہزار تھرمل یونٹ گیس سے بنائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے اسی جوڑ توڑ کو پیداواری لاگت کا نام دے کربجلی کو جس ہوشربا قیمت کے ساتھ عوام تک پہنچایا جاتا ہے اس میں حکومت کی سبسڈی کا احسان بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ عام صارف تو اتنی مہنگی بجلی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔اس کے علاوہ صارف سے واپس رقم کی وصولی پیداواری یونٹ تک جانے میں جو وقفہ آتا ہے اس دوران ادائیگی بھی حکومت ہی ان کمپنیوں کو کرتی ہے جو عموما بلوں کی عدم ادائیگی یا دیگر وجوہات کی بنا پہ خسارے میں چلا جاتا ہے۔ یوں گردشی قرضوں کاحجم بڑھتا جاتا ہے۔ان قرضوں کا شرح سود اور بجلی چوری کا نقصان تمام صارفین کو بجلی کے بل میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے حالانکہ جس نے پہلے بل نہیں دیا وہ اب کیوں دینے لگا ۔یوں بھی نادہندگان کوئی ہما شما نہیں ہوتے بڑے بڑے مگرمچھ ہوتے ہیں اس لئے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا اور لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ معاہدے کے مطابق یہ کمپنیاں بجلی بنائیں یا تاروں پہ کپڑے سکھائیں، حکومت انہیں ان کی پیداواری صلاحیت کا ساٹھ فیصد ادا کرنے کی پابند ہے اور ظاہر ہے یہ ادائیگیاں نوٹ چھاپ کر نہیں کی جائے گی کیونکہ ڈالر میں ہوگی۔تاحال ہم نے ڈالر چھاپنے کی مشین ایجاد نہیں کی۔توانائی کے شعبے میںا س نجکاری کا آغاز ورلڈ بینک کے ایما پہ 1994 میں ہوا تھا۔معلوم ہوتا ہے بی بی شہید کو ان کے شوہر نامدار نے یہ پٹی پڑھائی تھی ۔پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے نام پہ ملک کو سرمایہ کار کمپنیوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا گیا۔ بجلی بنانے والی ان کمپنیوں کو معاہدے کے تحت بیس فیصد ادائیگی کرنی تھی جبکہ باقی اسی فیصد حکومت کے ذمہ تھی جو بینکوں سے قرض لے کر ادا کیا گیا۔یہ پرائیویٹ کمپنیاں ہر قسم کے کارپوریٹ ٹیکس،کسٹم ڈیوٹی اور سلیز ٹیکس سے مکمل طور پہ مستثنیٰ تھیں۔ اس ملک میں جہاں مقامی مینوفیکچرر ایکسائز ٹیکس دے کر اس کی قیمت اور منافع اپنی پراڈکٹ میں شامل کرکے تقسیم کار کو پہنچاتا ہے جہاں وہ مزید ٹیکس اور منافع کی قیمت شامل کرکے صارف تک پہنچاتا ہے تو صارف کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ یہ کمپنیاں کس بنیاد پہ بجلی مہنگی بناتی ہیں اور کیوں ڈسٹریبوٹرز کو مہنگی فروخت کرتی ہیں اس کا کھرا نکالیں تو بآسانی اصل مجرموں تک پہنچا جاسکتا ہے جو کوئی اور نہیں اس سرمایہ کار کمپنیوں کے کمیشن ایجنٹ ہمارے اپنے حکمران ہیں۔جب آئی ایم ایف قرضے دیتی ہے تو حکومت سے یہی سبسڈی کم کرنے کا مطالبہ کیوں کرتی ہے جس سے مہنگائی کے مارے عوام کی پشت پہ درے پڑیں۔ ان حکمرانوں سے کیوں مطالبہ نہیں کرتی کہ کمیشن سے بنائی اپنی بیرون ملک جائیدادیں بیچو۔پچھلا قرض ادا کرو اور اگلا لے جائو۔ لیکن گردشی قرضوں کی ایسی لاٹھی ہاتھ لگی ہے جس سے ہر کسی کو ہانکا جاسکتا ہے کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ گردشی قرضے کس کو کس مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ان سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت پاکستان بجلی بنانے کے لئے ڈیم اور کڑی نگرانی میں ایسی پبلک سیکٹر کمپنیاں بنائے جن کے شیئر اسٹاک مارکیٹ میں لسٹ کئے جائیں اور جو کم ترین اخراجات پہ بجلی پیدا کریں۔معاشی مسائل کا حل کبھی پرائیوٹائزیشن میں نہیں ہوتا نہ ہی کارپوریٹ کمپنیوں کو عوام کے مسائل میں دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ان کا علاج ایک ایسی حکومت کے پاس ہوتا ہے جو سرکاری محکموں میں کرپشن کا خاتمہ کرے، اداروں کو مضبوط بنائے ، احتساب کو یقینی بنائے اور اخراجات کنٹرول کرے ۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ گزشتہ حکومت کے کارناموں کی بدولت ملک درآمداتی ٹیکس میں اضافے کے باوجود گزشتہ سال ریکارڈ برآمدات پہ مجبور ہوا ہے جس میں سی پیک کے پچاس بلین ڈالر بھی شامل ہیں۔درامدات میںا ضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا جو 2017ء میں منفی ساڑھے نو فیصد تک تھا۔ کرنٹ اکاونٹ گیپ مجموعی قومی پیداوار کا تقریبا پانچ فیصد ہوگیا جواسی حکومت کا اپنا چار فیصد کا ریکارڈ توڑ گیا۔فارن ایکسچینج ذخائر ستمبر میں آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے تک تیزی سے کم ہوئے۔ اب ملک کو تیرہویں بیل آوٹ کی ضرورت پڑی جو امریکی دبائو کے باعث نہ دیا جائے تو اچھا ہی ہے۔ملک اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے وہ ان لوگوں کے لئے تو کچھ اہمیت نہیں رکھتے جو مزید قرضہ لے کر ادائیگیاں کریں ،ان پہ مزید قرضے لیں اور عوام کو قرضوں میں جکڑا چھوڑ کر چلتے بنیں لیکن اس حکومت کے لئے یہ اتنے سنگین مسائل ہیں کہ اگلے پانچ سالوں تک انہیں سر اٹھانے کا وقت نہیں ملے گا لیکن ہمارا مسئلہ توپاک پتن کے ڈی پی او کا تبادلہ ہے۔