تقریباً پچاس سال کے بعد مشرقِ بعید پھر میدانِ جنگ بننے والا ہے۔ آج سے پنتالیس سال قبل، 30اپریل 1975ء کو امریکہ ذلت و رسوائی کے ساتھ ویت نام سے نکلا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا نے ابھی سکھ کا سانس لیا تھا کہ، ہند چینی کے وہ ویت نامی علاقے جو فرانس کے قبضے میں آئے تھے، ان میں 19دسمبر 1946ء کو ویت منہہ گوریلوں نے فرانسیسی قبضے کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ جنگ 20 جولائی 1954ء تک چلی جس میں ویت منہہ گوریلوں کو فتح حاصل ہوئی اور خطے میں چار نئے ملک وجود میں آئے، شمالی ویت نام، جنوبی ویت نام، لاؤس اور کمبوڈیا۔ اس جنگ میں آٹھ لاکھ بیالیس ہزار سات سو افراد مارے گئے جن میں چار لاکھ نہتے شہری تھے۔ اسی جنگ میں ویت نامی جرنیل گیاپ (Giap) نے شہرت حاصل کی تھی جس نے گوریلا جنگ کے بارے میں اپنی مشہور کتاب ہتھیاروں کے بغیر جنگ (War Without Weapons) تحریر کی، جو آج بھی مزاحمتی تحریکوں کے لئیے ایک مینوئل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس جنگ میں کیمونسٹ چین ’’ویت منہہ گوریلوں‘‘ کی مدد کر رہا تھا اور امریکہ فرانس کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔ فرانس اس خطے سے نکلا، تو امریکہ نے 1954ء میں جنوبی ویت نام میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا جس سے ایک ایسی 21سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں چوالیس لاکھ افراد مارے گئے۔ مرنے والے امریکی سپاہیوں کی تعداد 58,138 تھی، جن کے نام آج بھی واشنگٹن یادگار کے پارک میں موجود سیاہ دیوار پر کندہ ہیں۔ امریکہ کو اس کے بعد کمیونسٹ دشمن سے لڑنے کے لیے افغانستان کی صورت ایک گرم میدانِ جنگ مل گیا۔ سوویت یونین اپنی طاقت کے نشے میںسرشار افغانستان میں داخل تو ہو گیا، لیکن افغان مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست نے کمیونسٹ نظام کی بساط بھی الٹی اور روس کو بھی عالمی طاقت کے منصب سے نیچے گرادیا۔ اب امریکہ واحد قوت کے طور پر دنیا بھر میں دندنانے لگا۔ جگہ جگہ الجھتا اور اپنی مرضی مسلط کرتا۔ عراق اور افغانستان دو ایسے محاذ تھے جو اس نے اپنی قوت کے اظہار کے لیے کھولے۔ عراق میں تو وہ ایران کی خفیہ مدد کے ذریعے کامیاب ہو گیا لیکن افغان طالبان اس کے لیے ذلت و رسوائی اور بدترین شکست کا باعث بن گئے۔ امریکہ گذشتہ پینتالیس سال جنگوں میں الجھا رہا اور اس دوران ایک دوسری قوت جو خوابیدہ تھی، جس کی پہچان ہی ایک تاجر پیشہ امن پسند قوم کے طور پر تاریخ میں ملتی تھی، وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتی گئی۔ یہ لوگ لڑنے سے اسقدر دور بھاگتے تھے کہ دیوارِ چین بنا کر بیٹھ گئے کہ اب امن سے رہ پائیں گے، مگر پڑوس میں آباد چھوٹی سی ’’منگول‘‘ قوم نے چنگیز خان کی سربراہی میں 1205ء میں ان پر حملے کرنا شروع کیے اور ستر سال مسلسل جنگ کے بعد 1279ء میںکبلائی خان نے پورے چین پر قبضہ کرکے یوآن (Yuan) خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی جو 1368ء تک قائم رہی۔ اس طرح کی تاریخ کے حامل چین نے خود کو ان پینتالیس سالوں میں جنگوں سے علیحدہ رکھ کر اپنی توجہ معاشی ترقی کی جانب مبذول کررکھی۔ وہ نہ تو سوویت یونین اور افغان جنگ میں فریق بنا اور نہ ہی امریکہ کی دنیا پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ میں حصے دار ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ماوزئے تنگ کی موت کے بعد چین میں کیمونزم بھی دفن ہوچکا تھا اور ماؤ کے معاشرتی انقلاب سے نفرت نمایاں تھی۔ چیئر مین ماؤ، ورثے میں ایک ایسا چین چھوڑ کر گیا تھا، جس کا تقریباً ہر گھر اس کے معاشرتی انقلاب کے قتل و غارت کا نشانہ بنا ہوا تھا اور چین کی معاشی حالت ایک پسماندہ ملک جیسی ہی تھی۔ ماؤ کے مرنے کے بعد اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی اور ڈینگ ژاؤ بنگ ایک عظیم لیڈر بن کر ابھرا اور اس نے چین کو مارکیٹِ معیشت کے لیے کھول دیا۔ اس دور میں سنگاپور کی ترقی کے ماڈل کا دنیا بھر میں چرچا تھا۔ ڈینگ نے اقتدار میں آتے ہی فوراً سنگاپور میں ’’لی کو آن ہو ا‘‘سے ملاقات کی اور وہ اس سے بہت متاثر ہوا۔ لی کوآن نے ڈینگ کو پہلا مشورہ یہ دیا تھا کہ آئندہ سے دنیا کے ممالک میں کیمونسٹ انقلاب لانے کی کوششیں ترک کردو اور پہلے اپنی معاشی حالت کو بہتر بناؤ، اور دوسری بات یہ ہے کہ فوراً عالمی معاشی مارکیٹِ معیشت کے ساتھ منسلک ہو جاؤ اور معیشت کی سمت بدل دو۔ مگر ایک احتیاط کرنا، ان کے سیاسی و جمہوری نظام کو چین میں گھسنے نہ دینا، ورنہ کبھی ترقی نہیں کر سکو گے۔ ڈینگ فوراً بعد امریکہ گیا اور جمی کارٹر سے ملاقات کے بعد، اس کے سامنے مستقبل کے چین کا تقشہ واضح ہو چکا تھا۔ واپسی پر اس نے اپنی سخت گیر پولٹ بیورو سے خطاب کرتے ہوئے چینی زبان کا مشہور محاورہ بولا ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی کالی ہے یا سفید، اگر وہ چوہے پکڑتی ہے تو وہ اچھی ہے‘‘ اور یوں اس نے 1979ء میں چین کو کمیونسٹ نظام کی عالمی معاشی تنہائی سے نکال کر مغربی ماڈل والی معیشت کی ایسی راہ پر ڈال دیا، جس کا نتیجہ آج کا جدید، ترقی یافتہ اور عالمی طاقت کی حیثیت سے منظم چین ہے۔ امریکہ اور یورپ جنگوں میں الجھے ہوئے تھے اور چین خاموشی سے معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ چین کی اس ترقی کے بارے میں ایک غلط فہمی دل سے نکال لینی جاہیے کہ اس نے یہ ترقی عسکری محاذ پر اپنی سرمایہ کاری کو ختم کرکے کی ہے۔ چین سے زیادہ کون اس حقیقت سے آشنا ہوگا کہ عسکری قوت کے بغیر معاشی ترقی کسی بھی ملک کے لیے خطرناک ہوتی ہے۔ ایک امیر ملک پر دنیا بھر کے لٹیرے منگولوں کی طرح لوٹنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے صرف معاشی میدان میں ہی نہیں بلکہ عسکری میدان میں بھی بے پناہ ترقی کی۔ اس بات کا احساس امریکہ کو 2019ء میں اسوقت ہوا، جب طالبان سے مذاکرات شروع ہوئے، امریکہ کا جانا ٹھہر گیا، تو امریکہ نے سنجیدگی سے چین کی معاشی قوت کو روکنے کے لیے اپنے مشہور انڈوپیسفک (Indo-pacific) پروگرام کا آغاز کیا دیا۔ ویسے تو اس مشن کے خدوخال امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 11اکتوبر2011ء کو فارن پالیسی رسالے میں اپنامضمون تحریر کرتے ہوئے واضح کر دئیے تھے۔ مضمون کا عنوان ہی سب کچھ بتا دیتا ہے ’’America's Pacific Century‘‘ ’’امریکہ کی بحرالکاہل کی صدی‘‘۔ یہ ایک طویل مضمون ہے جس میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کے لیے اگلی صدی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ یہ مضمون امریکہ کے ان لاتعداد تھنک ٹینکوں کی آراء سے مرتب کیا گیا تھا جن کی بنائی گئی پالیسیوں کو امریکہ میں ایک تسلسل حاصل ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہیلری کلنٹن نے ایک فقرہ لکھا تھا، ’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت امریکہ کے اندر ہے وہ بے وقوف ہیں۔ امریکی طاقت امریکہ کے باہر ہے‘‘۔ عراق اور افغانستان کی طویل جنگوں سے تھکے ہوئے امریکہ کے لیے اب فوراً نیا محاذ کھولنا مشکل نظر آتا تھا، لیکن دنیا کے نقشے پر عالمی طاقت کے طور پر زندہ رہنے کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے اس مضمون کی اشاعت کے بعد امریکہ نے افغانستان، عراق اور مشرقِ وسطیٰ سے آہستہ آہستہ نکلنا شروع کیا اور آٹھ سال بعد 4نومبر 2019ء کو امریکی دفتر خارجہ نے اپنا انڈوپیسفک پلان جاری کر دیا۔ اس پلان کے مطابق ہوائی کے جزیرے سے افریقہ کے کیپ ٹاؤن تک کے سمندر پر غلبہ حاصل کرنا مقصود ہے۔ اس سے پہلے امریکی پلان ایشیا پیسفک کے نام سے تھا جس میں برما سے ہوائی تک کا سمندری علاقہ آتا تھا مگر اب اس کی حدود بڑھادی گئیں ہیں اور اس میں دو سمندر، بحرالکاہل اور بحرھند پورے کے پورے شامل کر لیے گئے ہیں۔ ماہرین نے اس پورے علاقے میں طاقت اور قوت کا اندازہ لگایا گیا تو چین ابھی تک بالادست نظر آتا ہے۔ اگر خطہ جنگ کی لپیٹ میں آتا ہے اور جو عین ممکن بھی ہے، تو پھر کون کون سے ممالک ہیں جو اس جنگ کا ایندھن بنیں گے؟ (جاری ہے)