وفاقی وزیر اطلاعات نے فرمایا ہے کہ نیب نے شہباز شریف کو پکڑا تو اس کے ڈی جی کی ڈگری جعلی ہونے کا شوشا چھوڑ دیا گیا۔ لگتا ہے‘ اطلاعات وزیر موصوف تک پہنچتے پہنچتے اپنا حلیہ بدل لیتی ہیں۔ ایسا ہی ہو گا‘ ورنہ وزیر صاحب ایسا بیان کیوں دیتے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ڈی جی صاحب کی جعلی ڈگری کا مسئلہ تب اٹھا تھا جب نیب نے تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو گرفتار کیا تھا۔ ایک صاحب نے لکھا تھا‘ انوکھا دیس ہے‘ یہاں جعلی ڈگری والوں کو عہدے ملتے ہیں اور اصلی ڈگری جن کے پاس ہوتی ہیں‘ انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑا جاتا ہے۔ یہ معاملہ انہی دنوں اٹھا ہوا تھا لیکن شروع بہت پہلے ہوا تھا جب ایک اخبار نویس نے اس جعلی ڈگری کے حوالے سے رٹ دائر کی تھی۔ اس ڈگری پر ایک سماعت 16تاریخ کو ہوئی تھی لیکن اب وہ ملتوی ہو گئی ہے۔ اس ڈگری پر میڈیا میں خوب شور ہے۔ اصولاً اصلی اور جعلی ڈگری کی بحث تو ہونی ہی نہیں چاہیے کہ یہ مسئلہ بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اپنے دور میں مستقل بنیادوں پر حل کر چکے ہیں۔ ان کا ’’قول فیصل‘‘ یوں تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ اصلی ہو چاہے نقلی۔ نیب کے ڈی جی پر جعلی ڈگری کا مدعا ہے۔ وہ تحریک انصاف کے عہدیدار نہیں ہیں لیکن یہ بات بھی وجہ تنازعہ نہیں بننا چاہیے کیونکہ رئیسانی ڈاکٹرائن کے تحت کہا جا سکتا ہے کہ عہدیدار‘ عہدیدار ہوتا ہے۔ چاہے نیب کا ہو چاہے تحریک انصاف کا۔ اور بالکل یہی بات ترجمان کے حوالے سے بھی ٹھیک ہے۔ یعنی ترجمان ترجمان ہوتا ہے چاہے نیب کا ہو چاہے پی ٹی آئی کا۔ حال ہی میں ایک بیان میڈیا پر شائع اور نشر ہوا جس میں اس نے مسلم لیگ ن کو ’’پٹواری‘‘ مافیا قرار دیا تھا۔ لوگ یہی سمجھے کہ یہ بیان پی ٹی آئی کے ترجمان کا تھا حالانکہ وہ غلط سمجھے۔ بیان نیب کے ترجمان کا تھا۔ ترجمان نے اس بیان میں جعلی ڈگری کے حوالے سے ڈی جی نیب کو مرد مومن قرار دیا۔ یہ ایک نامکمل اصطلاح ہے۔ ترجمان کو چاہیے تھا کہ ڈی جی موصوف کو مرد حق بھی کہتے یعنی مرد مومن‘ مرد حق ‘ ڈی جی نیب ڈی جی نیب۔ کوئی بات نہیں‘ پی ٹی آئی کے ترجمان معاف کیجئے گا۔ نیب کے ترجمان اس کوتاہی کا ازالہ اگلے بیان میں کر دیں گے۔ ٭٭٭٭٭ جعلی ڈگری کے معاملے پر لوگ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ مثلاً ایک بہت بڑے سیاسی سکالر کی ڈگری کا’’رولا‘‘ زرداری صاحب کے دور میں اٹھا تھا اور اب بھی اس کی گرد گاہے بہ گاہے اڑتی رہتی ہے۔ حسن اتفاق سے یہ سکالر اور قانون داں ان دنوں تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ کہا گیا کہ ان کی ڈگری جعلی ہے کیونکہ کینیڈا کی جس یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری دی ہے‘ اس کا کینیڈا میں کوئی وجود نہیں۔ کینیڈا تو ایک طرف‘ یار لوگوں نے اس چکر میں اس کے پڑوسی جزیرے گرین لینڈ کی بھی تلاشی لے لی اور کہا کہ وہاں بھی اس نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ خیر ذرا سی بات پر ڈگری کو جعلی قرار دینا انصاف کے خلاف ہے اور تحریک انصاف کے تو بالکل ہی خلاف ہے۔ اگر اس نام کی یونیورسٹی نہیں ہے تو شک کا فائدہ دینا چاہیے۔ یعنی اب نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ کہاں ہے کہ جب ڈگری لی گئی‘ تب بھی نہیں تھی۔ امکان یہی ہے کہ اس وقت یونیورسٹی موجود تھی۔ بعد میں ادھر ادھر ہو گئی چیز ہو یا عمارت‘ ادھر ادھر ہو ہی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کے مشیر نے یہ خوش کن اطلاع دی ہے کہ منی لانڈرنگ سے باہر بھجوائے گئے سات سو ارب روپے کا سراغ مل گیا ہے۔ لیکن خدا کرے کہ مشیر موصوف کی اطلاع ٹھیک ثابت ہو۔ اس لیے کہ انہی مشیر موصوف نے کچھ ہفتے پہلے لندن میں اسحاق ڈار کی دو جائیدادوں کا سراغ لگایا تھا لیکن بعدازاں اس سراغ نے یوٹرن لے لیا تھا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سات سو ارب روپے میں ہر قسم کی جائز دولت بھی ہے‘ ناجائز بھی اور جائز کتنی ہے‘ ناجائز کتنی۔ یہ کسی کو پتہ نہیں اور یہ واپس کیسے آئے گی اس کا تو کسی کو بالکل ہی پتہ نہیں۔ لیکن امید رکھنی چاہیے۔ خاں صاحب نے پلک جھپکتے میں پختونخوا کی سرزمین ایک ارب درختوں سے بھر دی تھی۔ وہ سات سو ارب روپے لانے کا چمتکار بھی کر دکھائیں گے۔ بشرطیکہ کوئی یہ نہ پوچھے کہ آنے والے ڈالر ہیں کہاں؟ ٭٭٭٭٭ پختونخواہ میں ہونے والی درختوں کی ارب کاری پر آڈیٹر جنرل پاکستان نے جو رپورٹ جاری کی‘ وہ میڈیا میں جگہ نہیں پا سکی۔ ایک آدھ اخبار نے ایک آدھ کالم میں یہ خبر چھاپی‘ باقی نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ آڈٹ رپورٹ طویل ہے لیکن حاصل غزل یہ مصرعہ ہے کہ نرسریوں پر بھاری رقم خرچ کی گئی لیکن کسی نرسری کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آڈیٹر صاحب کو مغالطہ لگا ہو۔ جب رقم دی گئی ہو تب نرسریوں کا وجود ہو گا۔ ماڈل صوبے میں ایک میٹرو بھی بن رہی ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے کہا تھا‘ ہم آٹھ ارب میں میٹرو بنا کر دکھائیں گے۔ اس بات کو تین برس ہو گئے۔ میٹرو پر پچاس ارب خرچ ہو چکے اب لاگت 70ارب کو پہنچ گئی اور شہر میں اس کا کوئی نشان نہیں ہے۔ پشاور سے آنے والے ایک باخبر ذرائع سے پوچھا‘ پشاور میں میٹرو کب بنے گی۔ بنے گی بھی یا نہیں؟ سر کھجاتے ہوئے بولے ’’پانچ چھ برس کے بعد ہی کوئی اندازہ لگایا جا سکے گا کہ بنے گی یا نہیں بنے گی‘‘ تب تک لاگت ‘ شاید ڈیڑھ کھرب کو پھلانگ چکی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ ماڈل صوبے کی ایک اور ’’حکومتی‘‘ خبر یہ ہے کہ صوبے میں 978 سرکاری سکول بند کئے جا رہے ہیں۔ ان میں 735 پرائمری232مڈل اور باقی ہائی سکول ہیں۔ معلوم ہوا کہ ترقی سڑکوں اور پلوں سے نہیں آتی کہ ساتھ ساتھ عمرانی ترقیاتی ڈاکٹرائن کے مطابق ترقی سکولوں سے بھی نہیں آتی۔ شاید جھگے جھونپڑے گرانے سے آتی ہو گی۔(نوٹ‘ترقی ہوتی ہے ‘ آتی نہیں لیکن خان صاحب آتی کہتے ہیں۔ چنانچہ احتراماً آتی لکھا)