مکرمی،یہ حقیقت ہے کہ ہمارا نصاب تو یورپ اور امریکا کا ہی مرہون منت رہا ہے۔ ہمارے مصنفین نے جو کتابیں لکھیں اردو زبان میں انکو ترقی یافتہ ممالک میں لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ اگر کہیں تو غلط نہیں ہو گا اور جو کتابیں ہمارے مصنفوں نے انگریزی زبان میں لکھیں انکو وہاں کی کتابوں کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔اس وقت تک انہی مصنفوں کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں جو یورپن یا امریکہ کے سکولوں کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بلواسطہ یا بلاواسطہ ہم نے وہی کچھ پڑھا ہے یا پڑھ رہے ہیں جو امریکا اور یورپ میں پڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم نے نہ تو مالی لحاظ سے اور بی اخلاقی لحاظ سے ترقی کی ہے۔ قوموں کی ترقی کا دارومدار صرف کتابیں پڑھ لینے سے یا ڈگریاں حاصل کر لینے سے نہیں ہے۔ ہمارے پاس تو ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی اور ماسٹر کی ڈگریاں بیرون ملک کے مایہ تعلیمی اداروں سے حاصل کی ہیں لیکن پھر بھی ان اداروں نے ترقی نہیں کی۔اگر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہے جس طرح باقی ممالک کر رہے ہیں تو اس کی وجہ ہماری سوچ اور کردار کے وہ منفی پہلو ہیں جن کو نظرانداز کرنا ایک بہت بڑی بیوقوفی ہے۔"! (زنیرہ ،ملتان)