فنانش ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے ،جو ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے محفوظ خیال کئے جاتے ہوں۔ان کی گرے لسٹ میں شمولیت ،دراصل ان کے لئے ایک وارننگ ہوتی ہے کہ وہ ان امور اور معاملات میں خود کو بہتر کریں۔ فیٹف کی موجودہ گرے لسٹ، جو 2فروری 2020ء کو جاری ہوئی ، میں پاکستان سمیت البانیہ‘ باربا ڈوس‘ کمبوڈیا‘ گھانا‘ آئس لینڈ ‘ جمیکا‘ موریٹس‘ زمبابوے‘ یمن‘ یوگنڈا‘ سیریا‘ پانامہ‘ مینگولیا‘ میانمار سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔بلیک لسٹ سے مراد وہ ممالک جو اس ضمن میں کلیۃ عدم تعاون کے حامل ہوں جس کو "Nccts"بھی کہا جاتا ہے۔یہ ممالک ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے معروف ہوتے ہیں،اس وقت فیٹف نے اس فہرست میں ایران اور نارتھ کوریا کو شامل کر رکھا ہے، پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے بعد، ستمبر 2019ء میں فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔پاکستان اس سے قبل 2012ء میں بھی اس مسئلہ سے دوچار رہ چکا ہے، جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ملک کے اینٹی ٹیررقوانین اور قواعد، فیٹف کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہ ہیں۔اس سلسلے میں فیٹف کا ایکشن پلان 27نکات پر مشتمل تھا۔گرے لسٹ کے مضمرات میں سے حسب ذیل اہم ہیں۔ 1 آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور اے ڈی بی کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی یعنی Economic sanctions ii۔آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور دوسرے اداروں کی طرف سے مالی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ۔ بین الاقوامی تجارت میں کمی ivانٹرنیشل بائیکاٹ فنانش ایکشن ٹاسک (FATF) نے اپنے حالیہ اجلاس کے اختتام پر ایک میڈیا بریفنگ کے ذریعے اس امر کا اعلان کر دیا کہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے تمام شرائط پوری کر دی ہیں۔13سے 17جون کو جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ فیٹف کے چار روزہ اجلاس میں پاکستان کے ایکشن پلانز 2018ء اور 2021ء کی تکمیل اور پاکستان کی کاوشوں کو تسلیم کیا گیا۔جو کہ یقینا ایک خوش آئند امر ہے۔تاہم گرے لسٹ سے نکلنا ابھی باقی ہے‘ جس کے لئے اکتوبر تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔بہرحال خوش کن امر یہ بھی ہے کہ سیاسی محاذ آرائی میں اس معاملہ پر کوئی بہت زیادہ منفی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہوئی۔وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے فیٹف کے اس اقدام کو عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کی بحالی سے تعبیر کیا ہے‘ جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سول ملٹری ٹیم نے پاکستان کا نام بلند کیا اور ایکشن پلان پر مربوط انداز میں عملدرآمد کو یقینی بنایا۔ حالیہ کامیابی یقینا پوری قوم کی چار سال کی مسلسل محنت کا ثمر ہے۔جس پر تشکر و اطیمنان ایک فطری امر ہے پاکستان نے فیٹف کے تحت ٹیرر فنانسنگ کے 27میں سے 27پوائنٹ جبکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے 7میں سے 7پوائنٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنایا۔اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور کائونٹر ٹیررسٹ فنانس (CFT) پر مبنی اس ایکشن پلان کو چار سال کی شبانہ روز کاوش اور مسلسل محنت سے پایہ تکمیل پر پہنچایا گیا‘ جس میں پاکستان کے کئی وفاقی اور صوبائی محکمے جن میں اوقاف و مذہبی امور نمایاں اور معتبر ہے‘ کی جدوجہد بھی شامل ہے۔اس لئے کہ مذکورہ شرائط کی تکمیل کے لئے ملک کے تمام دینی اداروں بشمول مدارس‘ مساجد ‘ دربار‘ آستانے اور خانقاہیں ‘ خواہ وہ وقف زمین پر قائم تھیں یا ذاتی پر‘ ان کو وقف پراپرٹی آرڈیننس کے ذریعے اب گورنمنٹ کے پاس خود کو رجسٹرڈکروانا اور اپنے ادارے‘ مدرسے ‘ مسجد یا خانقاہ کے بالخصوص مالی امور کو سالانہ بنیاد پر‘ حکومت کے پاس ایک رپورٹ کی صورت میں جمع کروانا شامل تھا۔جس کے نتیجہ میں حکومت کی طرف سے ان کو اس وقف ‘ جس کے وہ مالک، مہتمم یا متولی تھے‘ کے لئے مینجر نامزد کرکے ،ان کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ،جس کے لئے گورنمنٹ باقاعدہ سرٹفیکیٹ بھی جاری کرتی ھے۔ہمارے ان اداروں کے منتظمین کے لئے یہ ساری کارروائی بڑی تشویشناک تھی۔وہ پہلے ہی اوقاف اور دیگر سرکاری اداروں کی کارگزاریوں سے گھبرائے رہتے۔یہ مرحلہ ان کے لئے زیادہ مشکل اور صبر آزما تھا تاہم انہوں نے اس قومی اور ملکی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ اس مرحلے کو نبھایا۔گو کہ مختلف مرکزی تنظیمات جس میں اتحاد تنظیمان مدارس دینیہ پاکستان کی لیڈر شپ‘مشائخ و علماء کے قائدین‘ قومی اور صوبائی سطح پر، عمائدین حکومت و سلطنت کے ساتھ مل کر اپنے تحفظات اور تشویش و تجسس کا برملا اظہار کرتے رہے۔اس سسلے میں سپیکر قومی اسمبلی کے پاس کمیٹی روم نمبر 10میں بھی ایک اعلی سطحی اجلاس اور لاہور میں 90شاہراہ قائداعظم میں ایک اہم نشست سمیت ذیلی اور جزوی سطح پر کئی انتظامات و اہتمامات ہوئے۔جس میں بلاشبہ بہت زیادہ کریڈٹ پنجاب کی وزارت اوقاف و مذہبی امور کا بھی ہے۔جنہوں نے دینی طبقات کے ساتھ اپنے دیرینہ مراسم اور تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ،ان کے خدشات و وسواس کو اپنی محبت و موانست سے قابو کئے رکھا۔ بہرحال اس مشکل مرحلے میں سول ملٹری ورکنگ ریلیشن شپس بھی موثر اور معتبر بلکہ نتیجہ خیز رہی، اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی مشاورت سے سال 2019ء ہی میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں ایک اسپیشل سیل قائم کیا گیا، جس میں تیس سے زائد محکمے اور وزارتیں ’’آن بورڈ‘‘ تھی، مختلف اداروں اور ایجنسیوں نے بہترین اشتراک عمل اور ٹیم ورک کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور ایکشن پلان کے ذریعے۔۔۔۔۔ان امور پر دن رات محنت کی‘ جی ایچ کیو میں قائم شدہ اس سیل کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے ایک موثر لائحہ عمل ترتیب پایا۔یوں پاکستان نے 2021ء کا اپنا ایکشن پلان’ فیٹف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023ء سے پہلے مکمل کر لیا، پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ،جن کی گزشتہ 13ماہ کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں۔فیٹف پلان کے مطابق اس رپورٹنگ سائیکل میں ضبط کئے گئے اثاثوں کی تعداد اور مالیت میں خاطر خواہ اضافہ ظاہر کیا، جس میں 71فیصد اثاثے ضبط کئے گئے۔85فیصد اثاثوں کی مالیت میں اضافہ ہوا‘ مذکورہ سیل نے اپنی قومی رسک اسسمنٹ(NRA19) کے عمل کو اپنے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈر کے خطرات اور اس کی بنیاد پر جامعہ پلان مرتب کیا۔جس سے پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی واقع ہوئی۔اس کی بنیادی اور اہم وجہ اینٹی منی لانڈرنگ (AML)اور کائونٹر ٹیررسٹ فنانس(CFT)قوانین میں مسلسل بہتری ہے۔جس میں مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات وضع کئے گئے۔