ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرمت رسولؐ پہ حملہ آور ہونے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ اس نے ڈچ پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے جس کی اجازت ہالینڈ کے قومی سلامتی کے محکمے اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈچ کوآرڈینیٹر نے دے دی ہے۔ڈچ محکمہ انسداد دہشت گردی یا NCTDڈچ وزارت سلامتی اور انصاف کے زیر اہتمام ایک کونسل ہے جس کا سربراہ وزیر قانون و انصاف ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ محکمہ ہالینڈ میں شہری ہوا بازی کا ذمہ دار بھی ہے اور ملک میں دہشت گردی کے خطرے کی نگاہ داری بھی کرتا ہے۔ اس محکمے کے ہالینڈ کے ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی جذبات کو مجروح کرنے والے اس گھنائونے فعل کی اجازت دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہالینڈ کی حکومت اس قبیح فعل میں پوری طرح شریک ہے۔ ملعون گیرٹ ولڈرز کو پاکستان میں اس کے نام سے واقف زیادہ تر لوگ اس کی بنائی گئی متنازعہ فلم فتنہ کے ہدایت کار کے طور پہ ہی جانتے ہیں جبکہ اس کا اصل کیرئیرسیاست ہے ۔اس نے اپنی جماعت پارٹی فار فریڈم 2006 ء میں بنائی اور اسی سال عام انتخابات میں اس نے اپنی مسلمانوں اور اسلام مخالف مہم کے بل بوتے پہ نو سیٹیں حاصل کرلیں اور پارلیمنٹ میں پانچویں بڑی پارٹی بن گئی۔اس کے چار سال بعد 2010 ء کے انتخابات میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور وہ چوبیس سیٹیں حاصل کرکے ہالینڈ کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بیس سیٹوں کے ساتھ پارٹی فار فریڈم اب ہالینڈ کی دوسری بڑی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس کی مقبولیت میں اضافے کا اہم ترین سبب اس کے سربراہ کا اسلام دشمن اور شاتم رسول ہونا ہے۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ گیرٹ ولڈرز نے اس لعین حرکت کا ارتکاب کیا ہو۔اس کا نعرہ ہے کہ میں مسلمانوں سے نہیں اسلام سے نفرت کرتا ہوں۔ایک بار اس نے مسلمانوں کو تنبیہہ کی کہ اگر وہ نیدرلینڈز میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ آدھا قران نعوذ باللہ تلف کردیں۔اس نے بارہا نبی پاکؐ اور قران کی شان اقدس میں بدترین گستاخیاں کیں۔فلم فتنہ تو دنیا بھر میں مسلمانوںکی دل آزاری کا سبب بنی اور اسی کی وجہ سے اس پہ فلم کی نمائش کے سلسلے میں برطانیہ میں داخلے پہ پابندی بھی لگی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔اسی فلم کی وجہ سے آسٹریلوی عالم فیض محمد نے اس کے قتل کا فتوی جاری کیا اور القاعدہ نے اپنے مبینہ رسالے انسپائر میگزین میں اپنی جاری کی گئی ہٹ لسٹ میں اس کا نام بھی شامل کردیا۔اس لسٹ میں پہلے ہی ملعون سلمان رشدی اور فلیمنگ روز کا نام شامل تھا جو ڈنمارک کے بدنام زمانہ اخبار جیلانڈز پوسٹن کا ایڈیٹر تھا جس نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔اسی فہرست میں بعد ازاں فرانسیسی اخبار شارلے ہیبدو کے صحافی اسٹیفن کارب کا نام بھی شامل ہوگیا جو شارلے ہیبدو پہ حملے میں مارا گیا۔گیرٹ ولڈرز چونکہ مارا نہیں گیا اس لئے اس نے ڈچ پارلیمنٹ میںگستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کردیا جبکہ ڈچ پارلیمنٹ کی اسپیکر خدیجہ عارب ایک مراکشی مسلمان ہیں۔وہ اس ملعون جسارت پہ دلگیر ہیں اور انہوں نے غالباً اس سے برات کا اعلان کردیا ہے۔ اس پہ گیرٹ ولڈرز نے انہیں طعنہ دیا کہ اس عورت کے دل میں اپنے نبی ؐکی محبت اپنے ملک سے زیادہ ہے۔ اس ملعون او ر اس جیسے دوسرے شاتمان رسول کو اچھی طرح علم ہے کہ ہر مسلمان کے لئے اس کے نبی ؐکی محبت ہر شے سے بڑھ کر ہے اور اسی لئے وہ ایسی ناپاک جسارتیں کرتے رہتے اور حسب توفیق جہنم رسید ہوتے رہتے ہیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہالینڈ میں مراکشی مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو مختلف مواقع پہ ہجرت کر کے نیدرلینڈ میں مقیم ہوگئی۔ گیرٹ ولڈرز جو اپنی پارٹی بنانے سے پہلے نیدرلینڈز کے چوتھے بڑے شہر اوریخت کا مئیر بھی تھا، کی انتخابی مہم اسلام اور ان ہی مراکشی مسلمانوں کی دل آزاری پہ مشتمل ہوتی ہے۔ وہ یورپ میں بالعموم اور نیدرلینڈز میں بالخصوص مسلمانوں کی ہجرت اور معاشرت کے خلاف ہے۔ وہ اسے ٹرمپ کی طرح یورپی اور مغربی ثقافت کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مسلمان اس طرح یورپ کو ہجرت کرتے رہے تو ایک وقت آئے گا جب یوروبیا اور نیدربیا ایک حقیقت ہونگے حالانکہ اس کے ملک کی پارلیمنٹ میں اسپیکر کے مسلمان ہونے کے باوجود توہین ناموس رسالت کی ناپاک مہم اسی چاردیواری میں ہونے جارہی ہے اور نبی ؐکی محبت کا طعنہ سننے والی خدیجہ عارب چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپارہی کیونکہ پارلیمنٹ میں ملعون گیرٹ ولڈرز کی اکثریتی پارٹی موجود ہے جس نے اسی بنیاد پہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان ہی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو نہ روک سکی جو آزادی اظہار رائے کے نام پہ شائع کئے گئے۔ فیصلہ بالاخر بندوق کی گولی نے کیا اور کافی عرصے تک سناٹا چھایا رہا۔ وہ جمہوریت کا حسن تھا، آزادی اظہار جس کا زیور ہے تو جواب وہاں سے آیا جس کا کان اس زیور نے چھید کر رکھ دیا تھا۔ میں نے ابتدا میں ذکر کیا کہ گیرٹ ولڈرز کی اس ناپاک جسارت کو ہالینڈ کی دو وزاتیں پوری طرح سپورٹ کررہی ہیں۔ایک کا تعلق سیکوریٹی سے ہے جبکہ دوسری کا انسداد دہشت گردی سے۔ اس ناپاک جسارت کے نتائج و عواقب کا اگر کسی کو پورا ادارک ہے تو وہ یہی وزارتیں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہ گھناونی حرکت ملک کی سلامتی کو داو پہ لگا دے گی اس کے ساتھ ہی دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ متوقع ہے کیونکہ اس کی وجوہات انہوں نے فراہم کردی ہیں۔اس مخصوص معاملے میں ہالینڈ کی ان دو وزارتوں کی ذمہ داری اور دلچسپی سمجھ لی جائے تو مسلمانوں میں دہشت گردی کے عوامل کو سمجھنا مشکل نہیں رہے گا نہ ہی یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ مسلمانوں پہ دہشت گردی کا لیبل لگانے والے اس کی وجوہات سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اسے کھاد پانی بھی وہی فراہم کرتے ہیں۔انہیں علم ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح مشتعل کیا جاسکتا ہے اور پھر ان پہ دہشت گردی کا لیبل لگایا جاسکتا ہے۔ ناموس رسالت ؐپہ یہ رکیک اور مسلسل حملے اسی منصوبے کا ایک پہلو ہیں۔یہ کوئی اتفاقیہ صورتحال نہیں ہے۔ ان واقعات کے تسلسل پہ غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی باقاعدہ ابتدا 2005 ئمیں عراق پہ امریکی حملے کے بعد ہوئی اور تب سے یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ایک طرف مسلمانوں کی زمینوں پہ قبضے کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف ان کے جذبات اور ایمان کے سب سے حساس حصے پہ حملے جاری ہیں۔یہ انہیں ہر طرف سے بے بس کرنے کے نفسیاتی حربے ہیں جو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تشکیل دیے گئے ہیں۔انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ناموس رسالت ﷺ ایک مسلمان کے لئے کیا حیثیت رکھتی ہے انہیں اس کا علم شاید نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پہ متشددانہ رد عمل کے بعد ایک مسلمان کو دہشت گردی کے نام نہاد لیبل کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ اس کا مطمع نظر بس ایک ذات ہوتی ہے جو اسے دنیا کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہے۔ میں نے بارہا اس سوال پہ غور کیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی حدود کیا ہیں۔ اس سے بھی اہم سوال میرے لئے یہ تھا کہ آخر ناموس رسالت ؐ جس پہ ہر مسلمان جان دینے اور لینے پہ تل جاتا ہے آزادی اظہار کا بالخصوص نشانہ کیوں بنتی ہے؟کیوں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو مشتعل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور پھر اس کے نتائج کو برسوں اچھالا جاتا ہے۔اس کا جواب مجھے اسی گھر سے ملا جہاں سے یہ پتھر آتے ہیں۔ ڈنمارک کے ملعون جریدے جیلانڈ پوسٹن کے ایڈیٹر فلیمنگ روز نے اس کا وہ جواب دیا جو شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔ اس نے اپنے مضمون میں محمد(ﷺ) کے خاکے کیوں شائع کیے میںاس نے لکھا:میں چاہتا ہوں مسلمانوں کو آزادی اظہار کے وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو دوسروں کو حاصل ہیں۔ انہیں تو میرا مشکور ہونا چاہئے کہ میں ان سے کچھ لینا نہیں انہیں کچھ دینا چاہتا ہوں یعنی وہ حق جس میں وہ جو چاہیں کہہ سکیں۔ میرے لیے یہ اہم ہے کہ میں ایک خوفزدہ معاشرے کے مقابلے میں آزاد معاشرے کے لئے آواز بلند کرتا رہوں۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد ؐکے خاکے بنانا آزادی اظہارنہیں، توہین مذہب ہیں وہ اپنے تقدس کو دوسروں پہ تھوپ رہے ہیں جو یہ سیکولر جمہوریت کی نفی ہوگی۔ حقیقی جمہوریت وہی ہے جہاں کچھ بھی مقدس نہ ہو۔ اس مسکت جواب کی رو سے حقیقی جمہوریت کی طرف سفر جاری ہے۔اس سفر میں رکاوٹ وہ محبوب ہستی ہے جس کا ذکر سب سے بلند ہے اور ان ناکام جسارتوں کے باوجود قیامت تک بلند ہوتا رہے گا۔