ممتاز کالم نگار جناب حسن نثار نے اپنی شہرہ آفاق نعت کہی تو انہوں نے جن دوستوں کو یہ نعت سب سے پہلے سنائی ان میں میرے عزیز دوست سید فاروق حسن گیلانی مرحوم بھی شامل تھے۔ فاروق نے مجھے تبھی بتایا تھا کہ حسن نے ایک باکمال نعت کہنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ حسن نثار کی یہ نعت حب رسولؐ اور عشق مصطفیؐ کے حوالے سے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ بہت سے قارئین یہ نعت پہلے پڑھ یا سن چکے ہوں گے ذرا غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ عشق نبویؐ کی کلی کسی نہ کسی صورت میں ہر دل میں کھلی ہوتی ہے اور جنہیں اظہار پر اللہ نے قدرت دی ہوتی ہے وہ اس کلی کی مہک سے اپنے گرد و پیش کو منور اور معطر کر دیتے ہیں۔ اس نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے: تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا سانس لیتا تو اور میں جی اٹھتا کاش مکے کی میں فضا ہوتا ہجرتوں میں پڑائو ہوتا میں اور تو کچھ دیر کو روکا ہوتا تیرے حجرے کے آس پاس کہیں میں کوئی کچا راستہ ہوتا بیچ طائف بوقت سنگِ زنی تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا کسی غزوے میں زخمی ہو کے میں تیرے قدموں میں آ گرا ہوتا کاش احد میں شریک ہو سکتا اور باقی نہ پھر بچا ہوتا جناب ساقی فاروقی عجب آدمی تھے۔1963ء میں یو پی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے وقت پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی ہجرت کر کے آ گئے۔ بعدازاں وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقل مکانی کر کے لندن آ کر بس گئے۔ ساقی فاروقی اعلیٰ پائے کے شاعر مانے جاتے تھے اور ہندوستان و پاکستان کے ممتاز ادبی جرائد میں ان کی غزلیں اور نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ لندن ہی کیا سارے انگلستان کی اردو زبان و ادب کی رونقیں ان کے دم قدم سے آباد تھیں۔ ان کے بہت سے شعری مجموعے اردو میں اور ایک انگریزی میں شائع ہوئے۔ جنوری 2018ء میں ان کا لندن میں انتقال ہوا۔ وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہنے سے پہلے طویل عرصے کے لیے بیماری و معذوری کے جان لیوا مراحل سے گزرے۔ ساقی فاروقی نے ساری زندگی بڑی آزادانہ گزاری۔ اسلامی و مشرقی پابندیوں سے وہ ماورا تھے ان کی آزاد روی سے شہ پا کر اگر کوئی بدبخت شان مصطفی ؐ میں گستاخی کی جسارت کرتا تو اس پر وہ بڑے شدید ردعمل کا اظہار کرتے اور وہ ایسے گستاخ کو اپنی مجلس میں برداشت نہ کرتے اور کہتے کہ بے شک میں خدا سے ’’برگشتہ‘‘ مگر جناب مصطفی ﷺ کا ادنیٰ خادم ہوں۔ ان کے قریبی دوستوں کے بقول ساقی فاروقی نے وفات سے پہلے بتایا کہ وہ اب صاحب ایمان ہو چکے ہیں۔ ساقی فاروقی مرحوم سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ جن دنوں انگلستان میں سلمان رشدی کی ’’شیطانی آیات‘‘ کا چرچا تھا تو فاروقی صاحب ایک بڑے انگریزی اخبار کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک ادبی نشست میں اپنی ایک انگریزی نظم کے ساتھ پہنچے۔ اس تقریب کے اکثر شرکاء مقامی انگریز شعراء و ادباء تھے۔ وہاں ساقی صاحب نے مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کے برخلاف حضرت مریم ؑ کی شان میں ایک گستاخانہ نظم برائے تنقید پیش کی۔ جب وہ نظم پڑھ رہے تھے تو ہال میں سکوت مرگ طاری ہو گیا اور فضا بڑی سوگوار اور افسردہ ہو گئی۔بہت سے شرکاء تو بڑبڑاتے ہوئے ہال سے واک آئوٹ کر گئے۔ باقی جو بچے ان میں سے اکثر نے اس نظم کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ آخر میں اخبار کا ایڈیٹر اور ساقی فاروقی رہ گئے۔ فاروقی صاحب نے یہ نظم ایڈیٹر کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے اخبار میں اسی طرح شائع کر دو جیسے تم پہلے میری انگریزی نظمیں شائع کرتے رہے ہو۔ اس پر ایڈیٹر نے شائع کرنے سے معذرت کی۔ فاروقی صاحب نے ایڈیٹر سے کہا کہ تمہاری آزاد پریس کی پالیسی کہاں گئی؟ اس پر ایڈیٹر لاجواب ہو گیا مگر اس نے ساقی فاروقی کی گستاخانہ نظم شائع نہ کی۔ ساقی فاروقی نے انگریز ایڈیٹر سے کہا کہ تمہیں یہ باور کرانے کے لیے ہی میں نے یہ گستاخی کی۔ورنہ میرا دین اور ایمان اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے حیرت ہے کہ وہ مغرب کہ جو پرندوں اور حیوانوں تک کے حقوق و جذبات کے تحفظ کا دعویدار ہو‘ انسانوں کو دکھ پہنچانا معاشرتی جرم سمجھتا ہو وہ باقاعدہ بڑے منظم طریقے سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو زخم لگانے اور ان دلوں کو مجروح کرنے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے پر ہر وقت کیوں تلا رہتا ہے۔ شاید مغرب کا یہ گمان ہے کہ مسلمانوں کا کیا کوئی والی وارث نہیں۔ یوں تو صدیوں سے جہاں اہل مغرب کے حقیقت پسند فلاسفر اور دانشور جناب رسالت مآب ﷺ کے بلند ترین مقام و مرتبے کا اعتراف کرتے چلے آ رہے ہیں وہاں ایسے بدبختوں کی بھی کچھ تعداد ہے کہ جو شان اقدس ﷺ میں گستاخیاں کرتی چلی آ رہی ہے۔ تاہم گزشتہ چند برس سے میڈیا کی سطح پر گستاخانہ خاکوں کی ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔2005ء میں ڈنمارک جیلینڈ پوسٹن نامی اخبار نے اپنے ادارتی صفحے پر 12خاکے شائع کئے۔ اس پر شدید احتجاج ہوا۔ ڈنمارک کی مساجد کے آئمہ کرام نے شرق اوسط کے ممالک کا دورہ کر کے وہاں کے دینی و حکومتی حلقوں کو اس مذموم حرکت سے باخبر کیا۔ اس موقع پر بھی ہلاکتیںہوئیں۔ فرانسیسی ہفتہ وار کارٹون میگزین نے 2011,2007ء اور پھر 2015ء میں بھی اس طرح کے گستاخانہ خاکے شائع کئے۔2015ء میں چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا جس میں 12جانیں گئیں۔ میگزین کا کہنا ہے کہ ہم کبھی کبھی تمام مذاہب کی قابل احترام شخصیات و واقعات کے بارے میں کارٹون شائع کرتے رہتے ہیں۔ آزادی اظہار ہمارا حق ہے۔ میرا نہیں اندازہ کہ چارلی ہیبڈو نے کبھی ہولو کاسٹ کے بارے میں کوئی کارٹون شائع کیا ہو گا۔ ہالینڈ میں دوسری بڑی پارٹی کا سربراہ گریٹ ورلڈر 2018ء کے آواخر میں پارلیمنٹ کے احاطے میں اسلام دشمن خاکوں کا مقابلہ کروا رہا ہے۔ اس مقابلے میں شرکت کے لیے اب تک 200لوگوں نے درخواست دی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایونٹ مسلمانوں کے لیے بڑا دل خراش واقعہ ہو گا۔ پاکستان کی سینٹ نے گستاخانہ خاکوں کے اس مجوزہ پروگرام کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے ہالینڈ کی حکومت سے بھر پور مطالبہ کیا ہے وہ نہ صرف اس پروگرام کو روکے بلکہ اس طرح کے خاکوں کی اشاعت پر پابندی عائد کرے۔اس موقع پر عمران خان نے یہ معاملہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے اور اسلامی کانفرنس برائے تعاون کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ منگل کے روز وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے ہالینڈ کے وزیر خارجہ سٹف بلاک سے خاکوں کا مقابلہ رکوانے کے لیے بات کی۔ شاہ محمود قریشی نے ہالینڈ کے وزیر خارجہ پر یہ بھی واضح کیا کہ اس طرح کے واقعات انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔ قریشی صاحب نے ترکی کے وزیر خارجہ سے بھی اس بارے میں بات کی اور مشترکہ طور پر یہ معاملہ او آئی سی کے فورم پر اٹھانے کا فیصلہ ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے فوری طور پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو اعلیٰ سطحی اجلاس بلانے کے لیے خط بھی لکھ دیا ہے۔ عشق مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے کہ ہم انتہائی پرامن طریقے سے ساری دنیا میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور مغرب پر واضح کریں کہ قوم رسول ہاشمی اپنے نبی ﷺ سے کتنا والہانہ عشق کرتی ہے۔