لاہور پولیس کے ایک مرکز میں چھوٹا سا ہسپتال قائم ہے جسے صوبائی محکمہ صحت کی ایک نیم خود مختارکمپنی چلاتی ہے۔چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔وہاں تعینات ڈاکٹر صاحب کے کمرہ کے باہر درجنوں مریض بیٹھے تھے ۔ ڈیوٹی اوقات تھے۔ معالج انہیں چھوڑ کر ذاتی کام سے باہر چلے گئے۔ایک پولیس افسر نے کمپنی کے سربراہ سے شکایت کی۔کمپنی نے کنٹریکٹ پر بھرتی ڈاکٹر کے خلاف ڈیوٹی میں غفلت برتنے پر نظم و نسق کی خلاف ورزی پر کاروائی شروع کردی۔ ڈاکٹر کے خلاف پہلے بھی کئی شکایات آچکی تھیں۔ ڈاکٹر نے کمپنی کے سربراہ پر سفارشوںکے ذریعے بیچ بچاو ٔکے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ لیکن سزا کے طور پر ان کا کنٹریکٹ ختم کردیا گیا۔ ڈاکٹر ایک صوبائی وزیر کی سفارش لے آئے۔ ڈاکٹر نے بہانہ بنایا کہ ان کے ایک عزیز کی وفات ہوگئی تھی۔ اس لیے انہیں اچانک کلینک چھوڑ کر جانا پڑا۔ کمپنی نے ان سے کہا ہے کہ وہ عزیز کی وفات کا سرٹیفکیٹ اور اس سے اپنی رشتے داری کا ثبوت پیش کردیں۔ اب ڈاکٹر صاحب ڈیتھ سرٹیفکیٹ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ واقعہ کوبتانے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں نظام حکومت اور انتظامیہ کا ڈھانچہ جس بدنظمی کا شکار ہے اس کے پیچھے متعدد عوامل کارفرما ہیں۔بعض لوگ نظام کو بُرا کہتے ہیں۔بعض کرپشن کو خرابی کی وجہ سمجھتے ہیں۔ لیکن نظام کے ساتھ ساتھ ہمارا کلچر بھی گلا سڑا ہے۔ صرف کرپشن سے ساری خرابی نہیں ہورہی ۔ سفارش اور جان پہچان کا رواج بھی بگاڑ کا سبب ہے۔ اگر ڈاکٹر کا کوئی عزیز فوت ہوگیا تھا تو وہ اپنے منتظر مریضوں کو آرام سے بتا دیتے۔ ان سے معذرت کرلیتے اور کہتے کہ وہ اگلے روز آجائیں۔ جو ایمرجنسی کیسز تھے انہیں چند منٹ لگا کر دیکھ لیتے۔لیکن وہ ایسا کیوں کرتے؟ انہیں یقین تھا کہ وہ ڈیوٹی ادا کریں یا نہ کریں یہ نچلے درجہ کے پولیس ملازمین ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ کوئی ایکشن ہوا تو انہیں بچانے کے لیے تگڑی سفارشیں مل جائیں گی۔ جیسا کہ بعد میں ایک بااثر صوبائی وزیرنے مداخلت کردی۔جزا اور سزا کے تصور کے بغیر انتظامیہ کا نظام کیسے چلایا جاسکتا ہے؟ بھلا ہو ایک سر پھرے پولیس افسر اور کمپنی کے سربراہ کا جنہوں نے نوٹس لیا اور نظم و ضبط کی کارروائی کی لیکن ایسے بااصول اور ایماندار افسروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال غیر ملکوں اور عالمی اداروں سے تعلیم اور صحت کے نظام کو بہتر بنانے کی صرف تجاویز لینے کی غرض سے اربوںڈالر کے قرض لیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے غیر ملکی قرضے سوا سو ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ان کا بیشتر حصہ کمیشن خور افسران اور سیاستدانوں کے جیبوں میں گیا ہے۔ ان قرضوں کی سود سمیت واپسی کی خاطر عوام کو بے تحاشا ٹیکس دینے پڑتے ہیں ۔ مہنگائی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن تعلیم اور صحت کی سرکاری سہولتوں میں کوئی بہتری نہیں ہوتی۔ اگلے روز ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عالمی بینک سے صحت کے حکومتی محکمہ کو بہتر بنانے کی خاطر تقریبا چھ ارب ڈالر کا قرض لینے جارہی ہیں ۔ اسکا نام نیشنل ہیلتھ سپورٹ پروگرام ہے۔ اس کے تحت کوئی نیا ہسپتال نہیں بنے گا بلکہ اگلے پانچ برسوں میں صحت کے سرکاری نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کی جائے گی۔ عالمی بینک کے اکثر قرضے اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جن کے تحت موٹی موٹی رپورٹیںبنائی جاتی ہیں۔ ان رپورٹوں کو لکھنے کے لیے دوسرے ملکوں سے بھاری معاوضہ پرماہرین آتے ہیں۔بعض مقامی لوگوں سے کام کروایا جاتا ہے۔ تقریبا سارا روپیہ نام نہاد کنسلٹنٹ پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ یا ان کی مہنگی مہنگی گاڑیوں‘ پر تعیش دفاتر اور فائیو اسٹار ہوٹلو ں میں منعقد کی جانے والے اجلاس پر۔ ان رپورٹوں پر اکثر عمل نہیں کیا جاتا۔ وہ الماریوں میں گرد سمیٹتی رہتی ہیں۔ مجھے یاد ہے انیس سو نوے کی دہائی میں لاہور میں چلڈرن ہسپتال بن رہا تھا توپیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیرکی اس منصوبہ میں بہت دلچسپی ہوگئی۔ انہوں نے متعلقہ سیکرٹری کے ساتھ مل کر پراجیکٹ ڈائریکٹر پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ ہسپتال کے لیے درکار مشینری یورپ کے ملک بیلجئم سے خریدی جائے۔وہاں کے ہسپتالوں کی استعمال شدہ مشینری ۔ اس ملک کے سفیر کئی بار لاہور تشریف لائے۔ وزیر کی موجودگی میں افسروں سے ملاقاتیں کیں ۔ ایک دفعہ وزیر موصوف کے گھر پرملاقات ہوئی ۔ بیلجئم کی مشہور زمانہ چاکلیٹوں کے ڈبے افسروں کو پیش کیے گئے۔پراجیکٹ ڈائریکٹر نے مخالفت کردی کہ استعمال شدہ مشینری اکثر خراب ہوجاتی ہے اور اسکی مرمت پر بہت خرچ آتا ہے۔ متعلقہ ڈپٹی سیکرٹری نے مخالفت میں فائل پر نوٹ لکھ دیا۔ اگلے روز ڈپٹی سیکرٹری کا تبادلہ کردیا گیا۔ وزیر موصوف کک بیکس کی تلاش میں تھے۔ چونکہ بات فائل کا حصہ بن گئی تھی اس لیے بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ ورلڈ بینک کا چھ ارب ڈالرکاپروگرام ایسے سیاسی دباؤ کا کیا علاج کرسکتا ہے؟ یہ تو چند اچھے افسر تھے جنہوں نے غلط کام نہیں ہونے دیا۔ منتخب سیاسی وزیر ہر خرابی کا الزام سرکاری افسروں پر ڈالتے ہیں۔ جبکہ افسر شاہی سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں کی اکثریت گڑ بڑ میں ملوث ہے۔ دونوں مل جاتے ہیں۔ اکٹھے واردات ڈالتے ہیں۔ جو صاف ستھرے ‘ بااُصول لوگ ہیںوہ اکثر کھڈے لائن لگے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں ایک مقامی سیاستدان حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ راوی دریا کے ساتھ واقع سرکاری اراضی کاایک وسیع و عریض رقبہ انہیں اونے پونے داموں الاٹ کردیا جائے۔ اس پر قانونی رائے دی گئی کہ یہ سراسر غیر قانونی عمل ہوگا کہ صوبہ کے سب سے بڑے شہر کے قریب واقع اراضی نیلامی کی بجائے یکطرفہ طور پرکسی ایک پارٹی کو الاٹ کردی جائے۔ یہ کام نہ ہونے پروہ صاحب اتنا ناراض ہوئے کہ حکومت کے مخالف ہوگئے۔جب امیر‘ بااثرلوگوں کے ذاتی نوعیت کے غیر قانونی کام کاج نہیں ہوتے تو وہ حکومتوں کے خلاف الٹے سیدھے الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں۔ہمارے مسائل مقامی نوعیت کے ہیں۔ انہیں جاننے کے لیے ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت نہیں ۔ ان کے حل ہم سب کو معلوم ہیں۔جب تک ہمارے گلے سڑے کلچر کی اصلاح نہیں ہوتی نظام حکمرانی ‘ گورننس بہتر نہیں ہوسکتی۔جب لوگوں کی غالب اکثریت بددیانتی‘ بے اُصولی کو بُرا نہ سمجھے تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟ ٭٭٭٭٭