میں ان آنکھوں سے کہاں تک روتا گریہ کرتی تصویر کے ساتھ اک جسارت کا گنہگار ہوا کون لڑ سکتا ہے تقدیر کے ساتھ پوری کائنات کی اساس ہی تضادات پر ہے۔ رات دن جگنوئوں کی طرح جلتے بجھتے اڑتے جا رہے ہیں۔ فضا کے پنکھ نظر نہیں آتے بقا تو صرف خالق کو ہے مرزا نوشہ کیسے سوچتے تھے’’ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا۔ نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا۔ زندہ پل تو وہی ہے جو ہستی باقی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو اس کی یاد میں کٹ گیا وگرنہ تو گزرتی جا رہی ہے ‘ ہنس کر گزار دے یا اسے رو کر گزار دے‘‘ انسان کے اختیار میں ہے کیا وہ خود بھی نہیں اس کے خدوخال آئینے میں کیسے بدلتے ہیں۔ زندگی رنگوں کے جلو میں بڑھتی ہے اور پھر شام کے سائوں میں معدوم ہوتی جاتی ہے موت کی راہ خود بخود ہموار ہوتی جاتی ہے مگر موت تو ٹوکویں ہندسوں کی طرح ہے عمر و مرتبے کی کوئی قید نہیں بس یادرفتگاں ہمیں سوگوار کرتی رہتی ہے۔ عید کے روز میں اپنے پیارے ماموں اور معروف سکالر ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی قبر پر گیا جو چند ماہ پہلے دنیا سے پردہ کر گئے۔ میرے ساتھ مبشر اقبال صدیقی ‘ مشرف اقبال صدیقی اور میرا بڑا بیٹا عمیر بن سعد تھا۔ عید کے روز قبرستان جانا ہماری روایت ہے ویسے بھی قبروں کو یاد رکھنے کا ہمیں حکم بھی ہے کہ کوئی موت کو بھولے نہیں وہ نیو کیمپس کے قبرستان میں مدفون ہیں وہیں میرے نانا جان مولانا فضل کریم بڑے ماموں مفتی عبدالمجید اور درمیان والے ماموں مولانا منور آسودہ خاک ہیں۔ وہیں میری نانی جان کہ جو مجھے سب سے پیاری تھیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی معاملہ فہم عورت نہیں دیکھی۔ اس قبرستان میں میں پہلے بھی آ چکا ہوں مگر عید کا روز کچھ زیادہ ہی اہم ہوتا ہے کہ بے شمار لوگ پھول لے کر اپنے پیاروں سے محبت کا اظہار کرنے آتے ہیں اور فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ میں نے فاتحہ پڑھ لی تو مبشر اقبال صدیقی نے عین عقب میں موجود ایک قبر کی طرف اشارہ کیا تو وہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی والدہ کی قبر تھی اس پر تحریر میں یہی تھا ساتھ ہی ایک شعر تھا اور میرا گمان یہ ہے کہ خورشید رضوی نے اپنی والدہ کی تاریخ پیدائش نکالی ہو گی: ماں جہاں ہوتی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے آسمان تیرے ستاروں سے زمین اچھی ہے ہم سب وہاں فاتحہ پڑھنے گئے۔ اس کے بعد میرا ایک دیرینہ دوست شاہد مجید آ گیا کہ وہ فٹ بال کا کمال پلیئر تھا تب میں بھی ریزی ڈینشل کرکٹ ٹیم میں کھیلتا تھا۔ حامد میر اور میں اوپن کرتے تھے یہ کتنا سہانا زمانہ تھا۔ حامد میرکے والد گرامی وارث میر کی قبر بھی تو ہمارے سامنے اسی قبرستان میں تھی۔ حامد میر نے ان کے مدفن کو ذرا اپ گریڈ کروا دیا ہے چبوترا وغیرہ بنا ہوا تھا۔ سارے بھائی ہر عید پر فاتحہ کی غرض سے آتے ہیں۔ اس روز شاید وہ ہم سے پہلے ہو کر چلے گئے تھے۔ ہم نے بھی میر صاحب کے لئے فاتحہ پڑھی۔ کئی یادوں نے حافظے پر آن دستک دی وارث میر صاحب کے ساتھ اکثر و بیشتر اپنے محبوب پروفیسر افتخار احمد کے گھر 30/eمیں ملاقات رہی۔ مجھے وہ دلچسپ بات بھی یاد آئی کہ جب وارث میر نے خان بابا کی دکان پر کھڑے ہو کر کہا تھا’’دیکھو بھٹو بھی پھانسی چڑھ گیا۔ سب بڑے بڑے لوگ دنیا سے جا رہے ہیں اور میری طبیعت بھی خراب رہتی ہے۔ دیکھیے وقت کی ستم ظریفی وہ خان بابا وہیں اس مٹی میں دفن تھا۔ میں نے اس کے لئے بھی ہاتھ اٹھائے۔ وہی جو کسی نے کہا تھا کہ ہم سب دنیا میں مسابقت کے لئے ایک دوسرے کو روندتے اور پائمال کرنے سے گریز نہیں کرتے اور پھر ایک وقت آتا ہے ہم سب برابر میں مٹی کی ڈھیریاں بنے پڑے ہوتے ہیں۔ منیر سیفی نے کہا تھا: سب چالیں چل بیٹھا ہوں اب مٹی کی باری ہے اس کے بعد میری نظر اپنے استاد مکرم محمد اسماعیل بھٹی کے مدفن پر پڑی وہ ہمارے شعبہ انگریزی کے استاد تھے غالباً 90ء کی دھائی میں ایک ٹرپ پر گئے واپسی پر طبیعت خراب ہو گئی اور بس۔ وہ شاعر بھی تھے ان کا شعری مجموعہ ’’تانگاں دی لو‘‘ چھپا تھا اولڈ کیمپس میں ادبی حلقہ بھی ان کے زیر نگرانی چلتا تھا۔ اس کے بعد مجھے خالد علوی کی قبر پر لے جایا گیا۔ یہ وہی خالد علوی ہیں جنہوں نے معروف زمانہ کتاب ’’طب نبویؐ‘‘ تحریر کی تھی اور وہ شعبہ اسلامیات کے چیئرمین تھے۔ بہت ہی وضعدار اور نستعلیق آدمی۔ پھر ایک جگہ ہمارے پیروں میں زنجیر پڑ گئی کتبے پر لکھا تھا جہانگیر تمہی ہائے ہائے ایسی گفتگو کرنے والے کہ بس بندہ سنتا ہی چلا جائے۔ وہ جھنگ کے رہنے والے تھے اس لئے ڈاکٹر طاہر القادری پر ثقہ گفتگو فرمائے اور عقل لوٹ لیتے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی قبر پر چادر اور پھول ایسے چڑھے ہوئے تھے کچھ عرصہ بعد یہ دربار بن جائے گا۔ وہ بالکل ہی مختلف تھے۔ پتہ نہیں ان کی قبر کا مجاور کون بنا ہے کہ انہوں نے شادی ہی نہیں کی تھی۔ اس کے بعد معروف صحافی اور شعبہ صحافت کے چیئرمین مسکین علی حجازی کی قبر پر گئے کہ وہ ہمارے پڑوسی بھی تھے اور ان کا بیٹا وقار ہمارا دوست ہے۔ کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ مسکین علی حجازی کی بیوی باری علیگ کی بیٹی ہیں ۔ میں نے یہ سب کردار ہنستے بستے دیکھے تھے۔ آج وہ شوخ خاتون بھی منوں مٹی کے نیچے یہاں تھی۔ ہم سب کے لئے فاتحہ پڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ظہیر کاشمیری کا شعر یاد آ رہا تھا: لوح مزاردیکھ کے جی دنگ رہ گیا ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے پاس نیو کیمپس ہی میں رہ کر میں نے ماسٹر کیا تھا۔ ڈاکٹر اسلم صدیقی پر جان نچھاور کرنے والوں میں لیاقت بلوچ‘ سلمان بٹ‘ فرید احمد پراچہ‘ اشفاق مہر اور کتنے ہی لوگوں کو میں نے جامع مسجد ان کے دفتر میں دیکھا علمی گفتگو اور سوال جواب یہ کتنے بھر پور اور زندگی سے لبریز دن تھے۔ ماموں ہر سال حمدو و نعت کی اتنی بڑی محفل کرواتے کہ کم ازکم میں نے اس سطح کی محفل نہیں دیکھی۔ احمد ندیم قاسمی سے لے کر خالد احمد تک کون ایسا معروف شاعر ہو گا جو اس میں شرکت نہ کرتا ہو۔ یہ ایک تاریخ ہے وہ خود بھی تو نعت کہتے تھے۔ چیئرمین مساجد ڈیپارٹمنٹ تھے۔ پھر انہوں نے 12جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی جو روح القرآن کے نام سے تین مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے دین کی بہت خدمت کی اور اللہ نے انہیں عزتوں سے نوازا۔