آج گلو بٹ بہت خوش ہے، اسکی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ اٹھلاتا پھر رہا ہے۔ایک وجہ تو اسکی خوشی کی یہ ہے کہ ہزاروں کی تعدا میں اسکے بھائی بند کالے اور سفید کوٹ میں پیدا ہو چکے ہیں اور وہ آئے دن کسی ہسپتال، سڑک، گلی، عدالتوں غرضیکہ ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیںاور موقعہ پر ہی سستا اور فوری انصاف فراہم کرتے ہیں جسکے بارے میں وطن عزیز کی ہر حکومت غریب عوام کے ساتھ وعدہ کرتی رہی ہے لیکن ستربر سوں میں اسکے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ سب سے بڑی وجہ گلو بٹ کے خوش ہونے کی یہ ہے کہ اسکے سفید اور کالے کوٹ والے بھائی بند اسکی طرح قانون سے نہیں ڈرتے بلکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے تمام ادارے ان سے ڈرتے ہیں یا انکے حق میں تمام انصاف چلا جاتا ہے۔گلو بٹ اس لئے بھی خوش ہے کہ اس نے عدالت، عوام اور متاثرین سے معافی مانگی لیکن اسکے بھائی بندوں سے یہ سب معافی مانگتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ گلو بٹ کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ اگر اس نے شرافت اپنا لی تو یہ کار خیر کون سر انجام دے گا۔مبارک ہو گلو بٹ تمہیں اگلی کئی دہائیوں تک ایک سے بڑھ کر ایک گلو بٹ ملے گا جو تمہارے بنائے ہوئے کئی ریکارڈ توڑے گا۔ گلو بٹ تو پولیس کی مدد کے لئے نکلا تھا لیکن یہاں نکلنے والے گلو بٹوں کی پولیس مدد گار بن گئی ہے۔ تاریخ میں جھانکیں تو یہ صورتحال اسیّ اور نوّے کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب ملک میں فرقہ واریت کی جنگ شروع ہوئی ۔ پہلے پہل یہ گلّو بٹ قسم کے لوگ ایک شہر میں پیدا ہوئے اگرچہ انکا کسی مذہبی تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن انہوں نے اسکی آڑ میں بہت خرابی پیدا کی۔یہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر شہر اور قصبے میں نظر آنے لگے۔میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ ان میں زیادہ تر نوجوان وہ تھے جنکی گھر اور باہر کوئی شنوائی نہیں تھی۔یہ تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے جسکی وجہ سے گھر میں طعن و تشنیع کا شکار رہتے اور باہر انکا ٹھکانہ بد قماش لوگوں کے علاوہ نہیں ہوتا تھا، جو انکی نفسیاتی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے۔میرا اپنا شہر شورکوٹ جس طرح سے اس آفت کا نشانہ بنا آج بھی بیان کرتے ہوئے اشکبار ہو جاتا ہوں۔اس لڑائی میں بہت سے نوجوان دوستوں اور بزرگوں کو کھویا جنکا اس لڑائی میں کبھی کوئی کردار نہیں رہا تھا۔خیر یہ خرابی شروع کسی اور مقصد کے لئے ہوئی تھی جسکا تعلق جنرل ضیاء کی ایک فرقے کے ساتھ ذاتی مخاصمت سے تھالیکن ہمارے دوست ممالک اور خصوساً امریکہ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور یہاں پراکسی وار تین دہائیوں تک جاری رہی۔ اس دوران تمام قانون اور انصاف کے ادارے نہ صرف بے بس ہو گئے بلکہ دبک کر بیٹھ گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام مسلسل تیس سال سڑکوں سے لاشیں اٹھاتے رہے جس کے بعد بالآخر ملک مقتدر لوگوں اور سکیورٹی کے ذمہ داروں کو خیال آیا کہ اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہئے کیونکہ یہ آگ انکے گھروں کو لپیٹ میں لے چکی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ریاست نے ٹھان لی کہ دہشت گردوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو پھر کامیابی سے انہیں کوئی نہیں روک سکا۔بھلے ان دہشت گردوں کے پیچھے بہت سی بین الاقوامی قوتیں اور ہمارے دشمن ملک کی بھرپور مدد شامل تھی لیکن یہ سب ناکام ہوئے۔ ہم نے ہارڈ کور دہشت گردوں سے تو چھٹکارا حاصل کر لیا ہے لیکن ان تین دہائیوں میں قانون و انصاف کی حکمرانی کو جس طرح مذاق بنایا گیا اس نے سوسائٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ نظام عدل میں یقین نہ ہونے کے باعث تشدد کا عنصر غالب آتا چلا گیا ہے اور اب کوئی بھی جتھہ بنا کر اپنی عدالت لگا لیتا ہے۔ Mob Justice کا اصول پروان چڑھ چکا ہے۔ چند سو لوگ اکٹھے ہو کر اپنی انا کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی ہلاکت کے دلدوز مناظر شاید سب نے ہی دیکھے ہوں اور اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن بدھ کے روز لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کا حملہ ان سب پر بازی لے گیا۔ دو ملکوں کے درمیان جنگ سے بڑا حملے کا جواز کوئی نہیں ہو سکتا لیکن اس دوران بھی ہسپتالوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔لیکن جس بیدردی سے دل کے ہسپتال میں مار پیٹ کی گئی ،ادھ موئے مریضوں اور انکے رشتہ داروں کی جو درگت بنی اس پر شاید حملہ آوروں کو کوئی ملال ہو نہ ہو لیکن پوری قوم کے لئے یہ اجتماعی شرمندگی ہے۔دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے جو امیج بدھ کے روز پیش کیا گیا اسکے بعد مہذب دنیا میں ہمارا کیا مقام رہ گیا ہے۔سونے پر سہاگہ ، اس سارے کام میں ملوث وکلاء بطور کمیونٹی تھوڑا سا بھی شرمسا رنہیں ہیں بلکہ انتہائی بودے اور بھونڈے انداز میں اس انسانیت سوز عمل کی توجیحات پیش کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ایک ڈاکٹر نے انکی غیرت کو للکارا تھا، کسی کی دلیل ہے کہ فائرنگ کرنے والے نے ٹائی نہیں لگائی ہوئی تھی اسلئے وہ وکیل نہیں تھا،کوئی شر پسند عناصر کو الزام دے رہا ہے کہ انہوں نے ہنگامہ آرائی کی جبکہ وکیل پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ وکیل سات کلو میٹر دور سے چل کر پہنچے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ، ڈنڈوں اور اسلحہ سے لیس ہو کر آئے، انکے احتجاج کو پر امن کوئی نہیں مانے گا۔ڈاکٹر کی ویڈیو کو جواز بنا کر حملہ کرنے کو اپنے ساتھیوں کی وہ ویڈیو بھی دیکھنی چاہئیے جس میں وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران وکلاء کوبدلہ لینے پر اکسا رہے ہیں۔پہلے سے طے شدہ معاملہ جس میں معافی تلافی طے پا چکی تھی یہ سب کچھ انتخابات میں کامیابی کے لئے ایک ہتھکنڈہ تھا ،جس پر گلو بٹ یقیناً خوش ہوا۔