جب سے دنیاعالمی گائوں (گلوبل ویلج) میں تبدیل ہوگئی ہے تب سے اس کے افق پرماضی کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت کے خطرات کہیں زیادہ منڈلانا شروع ہوگئے ہیں-گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنااس وقت ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے جس سے نمٹنے کیلئے پچھلے چندسالوں سے عالمی سیمیناروں میں معاہدے کیے جارہے ہیں۔ غور کیا جائے تو آج سے سو سال پہلے لوگ گلوبل وارمنگ اور گلوبل ویلج جیسی اصطلاحات سے واقف نہیں تھے ۔گلوبل ویلج کی اصطلاح سب سے پہلے کینیڈا کے ایک میڈیا تھیورسٹ مارشل میک لوہان نے 1962ء میں اپنی کتاب میںاستعمال کی تھی۔جبکہ گلوبل وارمنگ والی اصطلاح پہلے 1975ء میںکولمبیایونیورسٹی کے ایک جیوکیمسٹ نے دنیا میں متعارف کروایا۔دیکھا جائے توبیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس برسوں تک عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ محض ایک قیاس آرائی سمجھی جاتی تھی۔بلکہ اسی دور میںکچھ سائنسدان ایسے بھی تھے جو حدت کو دنیا کیلئے نیک شگون تصور کرتے تھے- پچاس کی دہائی میں کچھ سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ(CO2 )کی مقدار بڑھتی جارہی ہے جو رواں صدی یعنی بیسویں صدی کے اختتام تک عالمی حدت میں غیرمعمولی اضافہ کرسکتی ہے -بعد میںموسمیات کے سب سے بڑے محقق کار روگر ویولے نے اعلانیہ طور پر کہاکہ اکیسویں صدی میں گرین ہاوسز گیسوں کا اخراج عالمی سطح پرموسمیاتی تبدیلیوں کا موجب بنے گی جس سے انسانی آبادی، سمندر، گلشیئرز اور حیوانات شدید متاثر ہونگے۔ تیل، گیس، کوئلہ، گرین ہاوسز ،نت نئی ٹیکنالوجیزکا بے دریغ استعمال اور جنگلات کی ظالمانہ کٹائی گلوبل وارمنگ میںاضافے کاموجب بن رہاہے جوکہ سب دور حاضر کے سہولت پسند ، لالچی اوربے حس انسان کا کیادھراہے۔ اپنی آسائش اور مفادات کیلئے انسان کے ہاتھوں بے دریغ احتراقی عمل کے نتیجے میں ٹنوں کے حساب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھیل کر دنیاکی حدت میں اضافہ کررہی ہے۔ حالانکہ غورکیاجائے تو یہی کاربن ڈائی آکسائڈاور دوسری گیسیں روز اول سے فضا میں موجود تھیں لیکن آج اس کا اخراج اتنی بڑی مقدار میں ہورہا ہے جس نے پوری دنیاکو پریشان کیاہواہے۔یعنی جوں جوں بے تحاشا صنعتی انقلابات اور ٹیکنالوجیز اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں توں توں ہمارے موسم بھی تغیرات سے دوچار ہورہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق عالمی حدت میں بنیادی طور پر جوچھ گیسیں اضافہ کررہی ہیں کیمیادانوں کے ہاںیہ علامتی طورپر CO2 سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہَوا سے ڈیڑھ گنا وزنی یہ بے بُواور بے رنگ گیس مختلف اشیاء کے جلنے کے علاوہ سانس لینے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ایک سائنسی اندازے کے مطابق دنیا میں ہرانسان سانس کے ذریعے روزانہ لگ بھگ ایک کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے جبکہ مجموعی طور پر دنیاکی کل آبادی سالانہ تین ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑتی ہے۔انٹرنیشنل اٹامک انرجیIAE) ( نے اپنی 2016ء کی رپورٹ میں جن دس ملکوں کوفضا میںزیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑنے کا ذمہ دار قرار دیاہے ، ان ملکوں میںپہلے نمبر پرچین ہے جس نے 2016ئمیں 9056.8میگاٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کی تھی جبکہ امریکہ،انڈیا ،روس ،جاپان، جرمنی، سائوتھ کوریا،ایران ، کینیڈااور سعودی عرب کواس حساب سے بالترتیب دوسرے ، تیسرے ، چوتھے ، پانچویں ، چھٹے ، ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور دسویں نمبرپررکھاہے۔چندسال پہلے ایک سائنسی تحقیق کے نتیجے میں یہ ہوش ربابات بھی سامنے آئی تھی کہ سال 2012میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج پینتیس اعشاریہ چھ ارب ٹن تھا جو کہ سال 2011ء کے مقابلے میں دو اعشاریہ چھ فی صد زیادہ تھا۔ جب ان اعداد وشمار کا موازنہ انیس سو نوے میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ سے کیاگیاتودوہزار بارہ کاسطح انیس سونوے کے مقابلے میں اٹھاون فی صد زیادہ تھا۔اس کاصاف مطلب یہ ہوا کہ دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک زیادہ سے زیادہ معاشی ، دفاعی اور سائنسی ترقی کی دوڑ میں عالمی حدت میں اضافہ کرنے والی گیسوں کے اخراج میں ہرگزرتے مہ وسال کے دوران فیاضی سے کام لے رہی ہے۔یہی وہ بنیادی اسباب ہیں کہ آج گلوبل وارمنگ کوصنعتی انقلاب کے زمانے سے قبل کی سطح کے قریب لانا محال اور ناممکن ہوگیاہے۔ انٹرنیشنل پینل فارکلائمیٹ چینچ (IPCC)نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پہاڑوں پر گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات کاجائزہ لیا ہے۔ اس پینل نے پچھلے بیس برسوں کے دوران پہلی مرتبہ یہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہاگیاہے کہ ہمارے پہاڑماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ گلوبل وارمنگ سے متاثر ہورہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہردس سال کے دوران امریکی ، یورپی اور ایشیائی پہاڑوں کے درجہ حرارت میں 0.54ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ ہورہاہے جونہ صرف پہاڑوں میں گلیشیئرز ،جنگلی حیات ، پودوں کیلئے خطرہ بن رہاہے بلکہ سمندری طوفانوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں آباد انسانوں کیلئے بھی خطرات پیداکررہا ہے۔گلوبل وارمنگ کے خطرات سے نمٹنے کیلئے چار سال پہلے افریقی ملک روانڈا میں ایک سوپچاس ملکوں نے ایک معاہدے پردستخط کیے جس میں ان ملکوں نے خاص قسم کی گرین ہاوس گیسوں (ہائیڈروفلوروکاربن )کا اخراج کم کرنے پر اتفاق کیا۔ ہائیڈرو فلورو کاربن وہ گیسیں ہیں جو فریجوں، اے سیز، ایئر کولرزوغیرہ کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں خارج ہوکر موسموں میں تغیراور عالمی حدت میں اضافہ کررہی ہیں۔فرانس کے شہر پیرس میں بھی چار سال پہلے گلوبل وارمنگ کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیاگیا جس میں دنیا کے مختلف ملکوں کے مندوبین نے گلوبل وارمنگ کو کم سطح پر لانے کا معاہدہ کیا۔نیز ہر صاحب عقل انسان کا یہ فریضہ بنتاہے کہ گلوبل وارمنگ کوکم کرنے کیلئے حسب توفیق اپنا اپنا حصہ ڈالے، زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور توانائی کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ بقول اقبال ع محو حیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیا ہوجائے گی