بلوچستان کے ضلع چاغی میں خودکش حملے میں تین چینی انجینئرز کو زخمی کرنا اور گلگت کارگاہ میں پولیس چوکی پر فائرنگ سے تین پولیس اہلکاروں کو شہید کرنا ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔قبل ازیںگلگت بلتستان میں طالبات کے چودہ سکولوں کو نذر آتش کرکے پورے علاقے میں خوف وہراس پھیلا یاگیا تھا۔ پہلی بار بلوچ لبریشن آرمی نے نہ صرف حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ چینی باشندوں پر مزید حملے کرنے کا اعلان بھی کیا ۔لبریشن آرمی کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں شریک ہیں۔ بلوچستان میں چینیوں پر حملے اور گلگت بلتستان میں پولیس چوکی اور سکولوں کو نذرآتش کرانے کے واقعات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے زمینی رابطہ کی واحد گزرگاہ شاہراہ ریشم جسے قراقرم ہائی وے بھی کہاجاتاہے گلگت بلتستان سے گزرتی ہے۔یہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو چین کو ایک محفوظ تجارتی راہداری فراہم کرتاہے ۔ گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے عالمی سمندری راستوں تک اسے رسائی ملتی ہے۔ اس کے برعکس بحیرہ جنوبی چین میں اسے زبردست مسائل کا سامنا ہے۔ تائیوان، ملائیشیا، برونائی اور فلپائن چین کے لیے آئے روز مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی بحری جہاز بھی اس علاقے میں مسلسل گشت کرتے ہیں‘ جو چین کو نہ صرف ناگوار گزرتے ہیں بلکہ وہ احتجاج بھی کرتاہے لیکن اس کے باوجود امریکی یہاں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی بھارت کے نہ چاہنے کے باوجود اسے بھی اس گشت میں شریک کرنے پر مصر ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں چین کے لیے بحیرہ جنوبی چین کے آزادانہ استعمال میں کافی دقتیں ہوں گے۔ اس صورت میں گوادر کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں اس وقت بیس ہزار کے لگ بھگ چینی شہری مختلف منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔تین سو سے کچھ اوپر چینی کمپنیاں بھی مختلف تعمیراتی یا کاروباری سرگرمیوں میں شریک ہیں۔ یہ سب لوگ پاک چین راہداری پر ہی نہیں کام کررہے بلکہ دس ہزار چینی ماہرین تو دیگر منصوبوں سے منسلک ہیں۔ چینی کمپنیوں میںلیبر اور کسی حد تک ٹیکنیکل سطح پر پاکستانی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔چینوں کے پاس پاکستان کے مقابلے میں جدید ٹیکنالوجی ہے۔وہ تیزرفتاری سے کثیر المنزلہ عمارتیں اور اور ہیڈ برج تعمیر کرلیتے ہیں۔وہ پہلے سے تیار شدہ میٹریل استعمال کرتے ہیں جس سے تعمیرات میںبہت کم وقت صرف ہوتاہے۔ جو عمارت پاکستانی چند برس میں مکمل کرتے ہیں چینی چند ماہ میں نہ صرف مکمل کرلیتے ہیں بلکہ اسے قابل استعمال بھی بنالیتے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اگرچہ سست رفتاری سے ہی سہی لیکن یہ تعمیراتی ٹیکنالوجی پاکستان منتقل ہورہی ہے ۔پاکستانی کمپنیاں اور ہنر مند اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ سی پیک جہاں ایک گیم چینجر ہے وہاں پاکستان کے لیے بہت ساری سفارتی اور معاشی مشکلات بھی لے کر آیا ہے۔ عالمی طاقتوں کو یہ منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے تو اس خطے کے تمام ممالک کے ساتھ کشیدگی نہ صرف بڑھادی ہے بلکہ پورے خطے کو زبردست تناؤ کا شکار بھی کردیا۔ ایران امریکہ تعلقات میں آنے والا ٹھہراؤ وقتی ثابت ہوا اور اب دونوں ممالک ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بحیرہ جنوبی چین پر جاری تنازعہ کے علاوہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ چل پڑی ہے۔ چینی مصنوعات پر امریکہ نے بھاری ٹیکس عائد کرکے دوطرفہ تعلقات کو سخت مشکلات سے دوچار کردیا ۔ترکی کے ساتھ بھی تعلقات میں تناؤ مسلسل بڑھ رہاہے۔ ترکی نے ایک امریکی پادری کو فتح اللہ گولن اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کررکھا ہے۔ ترکی کے دووزراء پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ پاکستان پر لگنے والی پابندیاں اور دھمکیوں نے اسلام آباد میں امریکہ کی حمایت میں بات کرنے والوں کا حلقہ محدود کردیا ۔ سوائے بھارت اور افغانستان کی حکومت کے امریکہ کا اس خطے میں اب کوئی اتحادی نظر نہیں آتا۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ خطے میں جس نئی گریٹ گیم کی نوید عرصے سے سنائی دیتی تھی صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس کے خدوخال تیزی سے متشکل ہونا شروع ہوچکے ہیں۔پاکستان کا جھکاؤاور انحصار چین اور روس پر بڑھ رہاہے اور وہ امریکہ کے حلقہ اثر سے نکل رہاہے۔ بلوچستا ن اور گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کو اسلام آباد میں عمومی طور پر اسی پس منظر میں دیکھاجاتاہے۔ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس اور را کے مابین پایاجانے والا اشتراک اب کافی پرانی سٹوری بن چکاہے۔ دونوں کا مقصد بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور پاکستان کو معاشی اور سیاسی مشکلات سے دوچار رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔چند برس قبل گلگت بلتستان اور بلوچستان کا ذکر تو خود نریندر مودی نے دہلی کے لال قلعہ کے مینار پر کھڑے ہوکر جشن آزادی کی تقریب سے خطاب میں کیا اورعندیہ دیاتھاکہ وہ مداخلت کریں گے۔ گلگت بلتستان میں لاکھوں سیاحوں کی سالانہ آمد اور روڈ انفراسٹرکچر میں بہتری سے معاشی امکانات کا ایک نیا جہاں ہویدا ہواہے۔ موجودہ حکومت ماضی کے مقابلے میں کافی متحرک اورتعمیر وترقی کے لیے سرگرم ہے۔ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان نے علاقے کی خدمت اور ایمپاورمنٹ کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔وہ وفاقی حکومت سے اختیارات کا ایک بہت بڑا حصہ گلگت منتقل کرانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔شہریوں کو سی پیک اور وفاقی حکومت کی فراخ دلانہ امداد سے زیر تکمیل درجنوں منصوبوں کے ثمرات سے جلد استفادے کا موقع ملنے کو ہے۔پاکستان کے مخالفین کو یہ برداشت نہیں ہوتا کہ گلگت بلتستان میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی ہو لہٰذاوہ مسلسل شرانگیزیاں کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ طالبات کے سکول جلانے کے معاملے پر گلگت بلتستان میں ایپکس کمیٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن، کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل ثاقب محمود ملک سمیت ریاستی اداروں کے اعلیٰ اہلکاروںنے شرپسند عناصرکے خلاف بلا تفریق سخت کارروائی کرنے کا فیصلے کیا اور فوری طور پر خطے کے عوام کو متحرک کیا جنہوں نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی نہ صرف حمایت کی بلکہ حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کیا۔علاوہ ازیں جنگی بنیادوں پر سکولوں کو ازسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ جناب عمران خان کی حکومت کو بلوچستان اور گلگت بلتستان کی سیکورٹی اور ترقی کے حوالے سے خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ یہاں کے شہری نہ صرف مطمئن ہوں بلکہ ترقی کے ثمرات سے بھرپور مستفید بھی ہوں۔اگر شہری خوش نہ ہوں تو محض سڑکیں بنانے اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیر سے ملک میں استحکام نہیں لایاجاسکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے حکمت عملی کے خدوخال ابھی واضح نہیںلیکن امید ہے کہ وہ اب نعرے بازی اور رائے عامہ کو خوش کرنے والے سلوگن سے اوپر اٹھ کر اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کرے گی۔ اس کی پیش رو حکومتیں دہشت گردی کے خلاف منصوبہ بندی سے لے کر عدالتوں سے مجرموں کوسزا دلانے تک کے سارے عمل کو عسکری اداروں کے حوالے کرکے خود بری الزمہ ہوگئی تھیں۔اس کے باوجود روتے بھی تھے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیاجاتا۔ موجودہ حکومت کو اپنی جان بچانے کے بجائے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنی چاہیے کیونکہ عسکری ادارے دہشت گرد گروہوں کی کمر تو توڑ سکتے ہیں لیکن ان کے بیانیے کو شکست صرف سیاسی فکر سے ہی دی جاسکتی ہے۔