گلگت بلتستان کے دیامر ڈویژن میں دہشت گردوں نے منظم حملے کر کے 12سکول تباہ کر دیے ہیںان میں سے 5سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا گیا جبکہ باقی کو آگ لگا ئی گئی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ شدت پسند ایک بار پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں‘ گلگت میں شر پسندوں کا اچانک منظم انداز میں کارروائی کرنا تشویش سے خالی نہیں ہے۔ اس واقعہ کے بعد پورے علاقے میں امن و امان کی صورتحال پر گہری فکرمندی پائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق گلگت میں شرح خواندگی ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ والدین کی جانب سے بچوں کو سکول بھیجنے کے رجحان میں اضافے کے بعد نئے سکول تعمیر کیے گئے لیکن ایسی کارروائیوں سے والدین بھی خوف میں مبتلا ہیں‘ اس کارروائی کے بعد 12ہزار طلبہ کی تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل سوات میں بچیوں کے سکولز اور کالجز کو دھماکوں سے اڑایا گیا‘ شدت پسند مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ایسی گھنائونی وارداتیں کرتے ہیں۔ گلگت کا شمار فرقہ واریت کے حوالے سے بھی پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں ہوتا ہے جبکہ بھارت بھی اس خطے کو متنازعہ قرار دیتا ہے اس کے علاوہ سی پیک منصوبہ بھی اسی علاقے سے گزر رہا ہے لہٰذا تفتیش میں ان تمام پہلوئوں پر غور کی ضرورت ہے۔ بھارت انتشار پھیلا کر سی پیک کے راستے میں روڑے اٹکانے پر تلا ہوا ہے اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی (را) نے سی پیک کے خلاف مستقل شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ اگر شدت پسندوں نے یہاں قدم جما لیے تو ملک کے لیے گیم چینجر منصوبوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لہٰذا ریاستی اداروں‘ محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو سر جوڑ کر ملکی مفاد کی خاطر اس پر سوچنا چاہیے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی ابھی سے تگ و دو کرنی چاہیے۔