آج میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں جو مجھے کوئی ہفتہ پہلے چھیڑنا چاہیے تھا۔ ملک میں اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ اس پر سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ایک دن اچانک پتا چلے گا کہ ’’قوم‘‘ نے اس کا فیصلہ کردیا ہے۔ یہ ہے گلگت و بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کا معاملہ۔حفیظ اللہ نیازی کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے اس موضوع پر ایک شاندار نشست کر ڈالی۔ بلایا تو کھانے پر تھا اور ۔کھاناان کا بڑا شاندار ہوتا ہے۔ چن چن کر ڈشیں ترتیب دیتے ہیں۔ کہیں کی مچھلی تو کہیں کا مرغ۔ گندم بھی خاص اور دنبہ بھی کہیں خاص پہاڑوں سے پکڑ کر منگوایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اعلان ہوا کہ ایک نشست ہو گی جس میں اس مسئلے پر بحث ہو گی ۔ غلام احمد فائی صاحب امریکہ سے موجود تھے۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی زندگی لگا دی ہے۔ دنیا بھر کے کشمیری مجاہدوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر عبدالباسط اور ایاز وزیر علی تھے اور لاہور سے تو ایک کہکشاں سجی تھی۔ یہاں سے ہمارے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خاں نمایاں تھے۔ یہ سب لوگ برقیاتی رابطوں کے طفیل ایک دوسرے کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے تھے۔ لگتا ہے حفیظ اللہ کے ارادے کچھ زیادہ ہی بلند ہیں۔جب سے میڈیا اس سے کنی کترانے لگا ہے‘ اس نے آوازہ حق بلند کرنے کے لئے کچھ ایسا انتظام کر رکھا ہے۔ اچھا تو میں بتا رہا تھا لاہور سے ایک کہکشاں سجی تھی۔ الطاف حسن قریشی بوجہ علالت تشریف نہ لا سکے۔ البتہ مجیب شامی موجود تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر اور پرو وائس چانسلر سلیم مظہر بھی اس کہکشاں کا حصہ تھے۔ یونیورسٹی کی نمائندگی خوب تھی۔سپیریئر یونیورسٹی کے چودھری عبدالرحمن ‘ لاہور یونیورسٹی کے اویس رئوف‘یو ایم ٹی کے ابراہیم حسن صہیب۔ مجھے تو یاد نہیں پڑ رہا۔ اچھا خاصا اجتماع تھا۔ سب کی توجہ سکرین پر تھی۔ سچی بات ہے کہ ہم لاہوریوں کو تو زیادہ فائدہ ایسے پہنچا کہ ایک تو فائی صاحب نے بڑی وضاحت سے بریف کیا۔ ان کا ایک ورکنگ پیپر بھی سرکولیٹ کیا گیا۔پھر ڈاکٹر باسط نے اس منصوبے میں چھپی تشویشناک خطرناکیوں کو اجاگر کیا اور ایاز وزیر تو صاف کہنے لگے کہ وہ غلطی نہ کیجیے جو آپ نے ہم فاٹا والوں کے ساتھ کی تھی۔ لاہور میں شمشاد صاحب اگرچہ ایک دوسرا نکتہ نظر بیان کر رہے تھے اور یہ بتا رہے تھے کہ اگر کہیں بعض مجبوریوں کے تحت ایسا کرنا بھی پڑا تو کن دلائل کی بنیاد پر یہ کشمیر پر ہمارے موقف سے انحراف نہیں ہو گا۔ ذرا تسلی ہوئی کہ یوں ہوا تو بھی ہمارا مقدمہ کمزور نہیں۔ بنیادی بحث یہی تھی کہ ہم گلگت و بلتستان کا پاکستان میں انضمام کر لیتے ہیں تو اس سے کہیں کشمیر کی حیثیت پر فرق تو نہیں پڑے گا۔کسی نے یہ تک شک ظاہر کیا کہ کہیں یہ کسی بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے دفنانے کا ایجنڈا ۔ ایک طرف بھارت نے کشمیر کی آزادانہ حیثیت ختم کر کے اسے اپنا صوبہ (ریاست) بنا لیا تو دوسری طرف لداخ کو الگ حیثیت دے کر براہ راست انڈیا میں شامل کر دیا۔ چین نے جواب میں وہاں اپنی افواج بھیج کر اپنے دعوے دار حصے کو خود مختاری برقرار رکھی۔اب ہم پاکستان میں گلگت و بلتستان کو پاکستان میں ضم کر لیتے ہیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ صرف چھوٹا سا آزاد کشمیر‘ یہ مشرف والا نسخہ نہیں ہوا کہ علاقے کو مختلف زون میں بانٹ دو۔ بلکہ یہ تو اس سے آگے کی بات ہے کہ مستقل طور پر ان زون کو تسلیم کر لو۔ سوال پیدا ہوا یہ اتنی جلدی میں ضرورت کیوں پیش آئی۔ جس بات کی ہم اتنی دیر مزاحمت کرتے رہے‘ اسے اب کیوں اختیار کر رہے ہیں۔ مشہور کیا جاتا ہے چین کا دبائو ہے۔ اس لئے کہ اس علاقے میں چین کے بہت سارے مفادات ہیں۔ شاہراہ قراقرم سے لے کر سی پیک تک سب اس خطے سے وابستہ ہے۔ ڈاکٹر باسط نے بتایا ایسا نہیں ہے۔ وہ چین میں بھی پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں چین کا یہ مسئلہ ہو نہیں سکتا۔ وہ ایسی باتوں کی پروا نہیں کرتا۔ ان کے خیال میں یہ امریکہ کا اصرار ہے۔ وہ اس خطے میں اپنی موجودگی ضروری سمجھتا ہے۔ خاص طور پر افغانستان کے بعد اس کے لئے یہ علاقہ چین‘ روس‘ بھارت پاکستان سب پر نظر رکھنے کے لئے بہت قیمتی ہو جاتا ہے۔ اللہ جانے کون درست کہہ رہا ہے۔ تاہم ہم پر دبائو اتنا ہے کہ فوج اور ہماری ایجنسیوں نے عجلت میں حزب اختلاف کے ارکان کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں سیاستدانوں سے اپیل کی کہ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کو ہم جلدی سے حل کریں۔ دوسرے معاملات کی طرح وزیر اعظم نے یہاں بھی آنے کی زحمت نہ کی۔اس طرح قبائلی علاقوں کے انضمام کی طرح گلگت و بلتستان کا مسئلہ بھی یوں لگنے لگا جیسے یہ کوئی فوج کا معاملہ ہے۔ اگر یہاں خود وزیر اعظم موجود ہوتے تو یقینا صورت حال مختلف ہوتی۔ اسی صورت حال نے افواہوں کو جنم دیا ۔کہنے والوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم نہ کہتے تھے کشمیر کا سودا کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ ایک بات اور عرض کر دو کہ کسی علاقے کو صوبہ بنانے کا معاملہ محض اس علاقے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک وفاقی مسئلہ ہے۔ کسی علاقے کو دستوری صوبہ بنانے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اس علاقے کو سٹیٹ میں مساوی نشستیں دیں گے۔کیا خیال ہے ہم ایسا کریں گے تو آئین غیر متوازن نہیں ہو جائے گا۔ شاید قبائلی علاقوں کو بھی اس لئے الگ صوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پنجاب جیسا آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ اور بلوچستان جیسا رقبے کے لحاظ سے وسیع صوبہ کیا اسے اپنی حق تلفی نہیں سمجھیں گے۔کہا جاتا ہے کہ اگر اس ملک میں نئے صوبے بنانا ہیں تو آپ کو پہلے پاکستان کے لوگوں کو قائل کرنا پڑے گا کہ وہ ملک کو 12یا 16صوبوں میں تقسیم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ کیا فی الوقت ایسا ممکن ہے جس قسم کی تنگ نظر صوبائیت رواج پا گئی ہے‘ اس میں کیا کسی ایسی تبدیلی کی گنجائش ہے۔ ایک درخواست اور ہے ہم نے جن دلائل کی بنا پر گلگت و بلتستان کو آج تک صوبہ نہیں بنایا‘ وہ اگر ختم ہو گئی ہیں یا غلط تھیں تو پھر ایسا آزاد کشمیر کے لئے کیوں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے‘ اس سے گلگت و بلتستان ترقی کرے گا تو کشمیر کیوں ترقی نہ کرے۔ہاں ایک سوال اور کہ ہم نے قبائلی علاقوں کو ان دو سالوں میں کتنی ترقی دی ہے۔پہلے اپنی نیتیں درست کرو‘ پھر جو کچھ کرو گے اللہ اس میں برکت دے گا۔ وگرنہ یہ ایک بے فائدہ مشق ہو گی۔