اخبارات میں شائع ہونے والی بعض تحریریں پڑھ کر محفوظ رکھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ ایک زمانے میں ہم لوگ کالموں کے تراشے جمع کرتے تھے۔ آج کل ہر اخبار کی ویب سائٹ ہے اور وہاں یونی کوڈ میں کالم موجود ہوتے ہیں، نہایت آسانی کے ساتھ کاپی کر کے اپنے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا موبائل کے کسی فولڈ ر میں محفوظ کئے جا سکتے ہیں۔ آج کل بہت سی ویب سائٹس بھی موجود ہیں جہاں مضامین یا بلاگز شائع کئے جاتے ہیں۔ کئی ویب سائٹس نے اپنے طور پر کالم نگاروں کے الگ الگ صفحات بنا رکھے ہیں جہاںقاری چاہے تواپنے پسندیدہ لکھاری کے پرانے کالم بھی پڑھ سکتا ہے۔یہ بہت اچھا رجحان ہے، لکھنے والوں اور قارئین کو اس سے سہولت ملی ہے۔ بعض کالم البتہ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا جواب نہ دیا جائے تو ان میں موجود نکات کے حوالے سے وضاحت نہ کی جائے تو ان میں موجود فکری مغالطے اور غلط بیانیاں بھی آگے سفر کرتی رہتی ہیں۔ ان فکری مغالطوں سے لبریز تحریریں کمپیوٹروں، موبائل فون میں محفوظ ہو کر مزید مغالطے پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریر گزشتہ روز ایک معروف سوشل میڈیا ویب سائٹ پر دیکھی۔ بعض لکھاری دوستوں نے اسے شیئر کیا تو نظر پڑی۔ ابصار عالم نے اسے تحریر کیا۔ ابصار عالم سینئر صحافی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں سے وابستہ رہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے خاصے قریب رہے، اسی وجہ سے انہیں پیمرا کا سربراہ بھی بنایا گیا، بعد میں ایک عدالتی فیصلے کے باعث انہیں ہٹنا پڑا۔انہوں نے ’’گمراہی سے گولی تک ‘‘کے نام سے ایک طویل مضمون تحریر کیا۔ ایک لحاظ سے انہوں نے اپنے فکری سفر کی روداد رقم کی ۔ گمراہی کا لفظ تو خیر سمجھ آتا ہے کہ اپنے ابتدائی زمانے کی طرف اشارہ کیا، گولی کا اشارہ شائد ان کے ساتھ کچھ عرصہ قبل پیش آنے والے واقعے کی مناسبت سے ہے۔ ابصار عالم ہمارے سینئر ہیں، عمر میں بھی کچھ بڑے ہی ہوں گے، ان کا احترام ہے۔ اپنی اس تحریر میں البتہ وہ ایسے کئی فکری مغالطوں کا شکار نظر آئے جن کی وضاحت ضروری ہے۔ ابصار عالم نے ابتدا میں اپریل 1977ء کے ایک دن کا ماجرا بیان کیا، جب ان کے دو نوجوان بھائیوں کی لاشیں گھر آئیں۔ ان دنوں بھٹوصاحب کے متنازع الیکشن کے خلاف اپوزیشن اتحاد پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس)کی احتجاجی تحریک چل رہی تھی۔ ان کے دونوں نوجوان بھائی اس تحریک میںدیگر لاکھوں نوجوانوں کی طرح شامل تھے۔ابصار عالم نے پہلے تو یہ طعنہ دیا کہ احتجاجی تحریک کو یکایک نظام مصطفیٰ تحریک کانام کیوں دیا گیا اور پھرپی این اے کی احتجاجی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اس سے ہنگامہ آرائی ہوئی اور میرے بھائیوں کی جان گئی۔ سچی بات ہے دو تین بار پڑھنے کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مصنف کو شکایت کس سے اور کیوں ہے؟ انہیں اپوزیشن اتحاد پر یہ اعتراض ہے کہ اس نے پاکستانی تاریخ کے بدترین دھاندلی والے الیکشن پر احتجاجی تحریک کیوں چلائی یا اس تحریک کے دوران نظام مصطفیٰ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ؟اگر فرض کریں نظام مصطفی کا نعرہ نہ لگایا جاتا تو کیا احتجاجی تحریک کو بھٹو حکومت ظالمانہ اور وحشیانہ انداز سے نہ کچلتی؟ جوان بھائیوں کا جانا ظاہر ہے بڑا صدمہ ہے، ہر ایک کو مصنف اور ان کے خاندان سے ہمدردی ہوگی، مگر اب چوالیس سال بعد لکھتے ہوئے انصاف اور عدل سے کام لینا چاہیے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ملک میں الیکشن ہوئے، ان میں بدترین دھاندلی ہوئی ، پنجابی محاورے کے مطابق رج کر دھاندلی کی گئی۔ خود پیپلزپارٹی کی قیادت بھی چند حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے پر تیار تھی، انہیں بھی اندازہ تھا کہ’’ مسالہ ‘‘کچھ زیادہ لگ گیا ہے اور یہ نتائج کسی کے لئے قابل قبول نہیں۔ اپوزیشن پورا الیکشن دوبارہ کرانے کا مطالبہ کر رہی تھی، یہ جائز مطالبہ تھا۔بھٹو حکومت نے اسے ماننے کے بجائے اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی۔اس پراحتجاج ہواتو اسے بھی سختی سے کچل ڈالا۔ عوامی جلوسوں پر گولی چلائی گئی ، مساجد میں فائرنگ ہوئی، سیاسی کارکنوں کو خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کارکنو ں کو دبانے کے لئے باقاعدہ ہیرا منڈی سے طوائفیں بلوائی گئیں، جسے اس زمانے کے اخبارات نے نتھ فورس کا نام دیا۔ دنیا بھر میں الیکشن ہوتے ہیں، کہیں پر دھاندلی ہو تو اس پر احتجاج ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہے، اس احتجاج کو برداشت کیا جاتا ہے اور مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صرف فسطائی اور آمرانہ حکومتیں ہی سیاسی کارکنوں پر گولی چلاتی ہیں اور لاشیں گرانے کا باعث بنتی ہیں۔ ستتر کی تحریک میں اپوزیشن کے جتنے کارکن اور جلسوں کے شرکا ہلاک یا درست معنوں میں قتل ہوئے، ان کی ذمہ داری اپوزیشن پر نہیں بلکہ بھٹو اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وہ بھٹو جو جمہوریت کے چیمپین تھے، جو خود کو منتخب وزیراعظم کہتے تھے، انہوں نے یہ سب ظلم ڈھائے۔ پرامن سیاسی احتجاجی تحریک میں مرنے والے نوجوانوں کی ذمہ داری اگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر ڈالی جائے یا نظام مصطفیٰ کے نعرے کو اس کا بالواسطہ ذمہ دار ٹھیرایا جائے تو یہ نرم سے نرم لفظوں میں بھی فکری بددیانتی، ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ممدوح ابصار عالم کا یہ واحد ظلم نہیں۔، حقائق مسخ کرتی، انتہائی یک رخے، متعصبانہ ، خاص ایجنڈے کے تحت لکھی گئی اس تحریر میں یہ بار بار ہوا۔ اس تحریر کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ہرا یک کو اپنی بات کہنے کا حق ہے، چاہے وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ اس حق کا ہم احترام کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اکثر ایسی تحریروں سے صرف نظر کر کے آگے چلے جاتے ہیں۔ اس تحریر کو مگر اس ٹیگ لائن کے ساتھ مختلف فیس بک وال پر پوسٹ کیا گیا،’’ ابصار عالم کا یہ کالم، پڑھنے،سوچنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔‘‘ اس پر ہم نے کچھ وقت نکال کر یہ طویل تحریر پڑھی۔ کچھ باتوں کی سمجھ نہ آئی تو اپنی کم فہمی پر ماتم کرتے ہوئے دوبارہ پڑھا۔ تیسری بار پڑھا توعلم ہوا کہ مصنف نے اپنے وسیع صحافتی، سیاسی تجربے میں کئی حیران کن ’’مشاہدات، معلومات‘‘ حاصل کی ہیں۔ ان کی بنیاد پر جو نتائج اخذ کئے ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ ’’دلچسپ ‘‘ہیں۔ مثال کے طور پر ابصار عالم کے اس کالم سے ہمیں علم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مہروں نے ماڈل ٹائون لاہور میں بے گناہ معصوم عوام کو مروایا تھا۔یہ کالم نہ پڑھتے توہم ہمیشہ ماڈل ٹائون میں ن لیگ کے سیاسی مخالف ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے گرد حفاظتی باڑھ وغیرہ گرانے کے لئے پنجاب پولیس کے آپریشن کو ذمہ دار ٹھیراتے رہتے۔وہ آپریشن ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایاگیا تھا، اس میں گلوبٹ جیسے مسلم لیگی کارکنوں کی توڑ پھوڑ بھی سب نے دیکھی، تحریک القادری کی تنظیم کے چودہ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ہم سب لوگ اس جرم کی ذمہ داری پنجاب پولیس، پنجاب حکومت اور رانا ثنااللہ جیسے سخت گیر وزرا پر ڈالتے رہے۔ ابصار عالم نے ہمیں اس فکری گمراہی سے نجات دلائی اور بتایا ہے کہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ نے کیا تھا۔ واہ کیا بات ہے۔ گمراہی کا سفرایسے ہی تمام ہوتاہے۔ اس سے پہلے ہم یہ’’ تاریخی معلومات‘‘ بھی اسی کالم سے حاصل کر چکے تھے کہ بھٹو صاحب کی اپوزیشن یعنی قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کے خلاف ایک ناقابل اشاعت قسم کے گھٹیا مبینہ الزام پر پیپلزپارٹی والوںکا سوشل بائیکاٹ یعنی لین دین، کھانا پینا،ملنا جلنا بند کر دیا تھا۔تاریخ کی کتابوں میں اس سے پہلے جو کچھ لکھا تھا، وہ ہم نے غلط پڑھا تھا۔جس کے مطابق بھٹو دور میں کئی ممتاز صحافیوں کو برسوں کی جیل کاٹنا پڑی، اخبارات پر خوفناک سنسر رہا، سیاسی رہنمائوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں، انہیں اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینکا گیا، لاہور کے تاجپورہ جلسہ میں سرعام گولیاں چلا کر درجنوں افراد قتل کر دئیے گئے ، ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق جیسے رہنما قتل ہوئے،مخالف سیاسی کارکنوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالا گیا۔اللہ کا شکر ہے کہ جناب ِابصار عالم نے یہ مخفی تاریخی حقیقت آشکار کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کے خلاف بیزاری اور کشیدگی حکومتی مظالم کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی رسالے میں چھپنے والے بے بنیاد الزام کی وجہ سے تھی۔ فاضل لکھاری کے اس کالم سے ہمیں پتہ چلا کہ میاں نواز شریف نے 93 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ کے موقعہ پر تصادم ٹالنے کے لئے بے نظیر بھٹو کا مطالبہ مانا اور نئے الیکشن کا اعلان کر دیا۔ ہم نے تو اس حوالے سے ان اجلاسوں کی تفصیل پڑھ رکھی تھی، جس میں وزیراعظم نواز شریف اور صد ر اسحاق خان کے مابین ڈیڈ لاک پیدا ہونے پرفیصلہ ہوا کہ دونوں جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے صدر اسحاق خان کے مستعفی ہونے کی شرط پر ہی قوم سے خطاب کیا وغیرہ وغیرہ۔ اب معلوم ہوا کہ نہیں وہ تو سب گپ تھی، اصل میں تو میاں صاحب نے اپنی فراخدلی اور وسعت قلبی کے باعث بی بی کے لانگ مارچ کا سنتے ہی دل مزید بڑا کیا اور الیکشن کا اعلان کر دیا۔ کیا بات ہے ،’’ تاریخی حقائق‘‘ کسی ایک کالم سے یوں ابل ابل کر سامنے آئیں گے، کبھی سوچا نہ تھا۔ (جاری ہے)