وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے گندم کی درآمد میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس برہمی کی وجہ گندم کی کمیابی اور آٹے کی قیمتوں میں بے قابو اضافہ ہے۔ مقامی پیداوار کم ہونے اور ذخیرہ اندوز مافیا کے سرگرم ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے لئے روٹی کا حصول ان حالات میں مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت نے طلب پورا کرنے کے لئے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن بروقت گندم نہ پہنچنے کی وجہ سے اس فیصلے کے ثمرات ضائع ہو رہے ہیں۔رواں برس جولائی میں نجی شعبے کو 10لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ وفاقی حکومت نے اندرون ملک گندم کی آزادانہ نقل و حمل پر عاید پابندی بھی ہٹا دی تھی۔درآمدی اجازت نامے میں گندم پر عاید ساٹھ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی‘ گیارہ فیصد کسٹم ڈیوٹی‘ سترہ فیصد سیلز ٹیکس اور چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اس وجہ سے ختم کیا گیا کہ شہریوں کو گندم سستے داموں دستیاب ہو اور آٹے کی قیمتوں کو کم رکھا جا سکے۔حکومت کو نا تجربہ کار قرار دے کر اپوزیشن نے گندم خریداری پالیسی کو ہدف بنایا ،وہ فلور مل مالکان جو اپوزیشن سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی مسائل کو بڑھانے کی کوشش کی ،سرکاری ملازمین مدت سے کام کرنا چھوڑ چکے ہیں ،محمکہ خوراک کی نا اہلی نے مسائل کی شدت میں اضافہ کر دیا، ساری صورت حال کو سنبھالنا صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کا کام تھا جو نہیں کیا گیا اور سارا دباو براہ راست وفاقی حکومت پر آگیا۔ حالیہ برس کے آغاز میں جب گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے کو تیار تھی تو یکایک گندم کی کمی کا بتایا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی آٹے کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ اس صورت حال میں مارکیٹ میں موجود آڑھتی اور فلور ملیں اپنے طور پر فیصلے کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے بروقت مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ دسمبر 2019ء اور جنوری 2020ء میں جب معاملات سنگین ہوئے تو حکومت کے لئے اپوزیشن کی تنقید ایک اور پریشانی کا سبب بن گئی۔ وزیر اعظم نے گندم اور آٹے بحران میں بعض حکومتی شخصیات کا نام آنے پر انکوائری کا حکم دیدیا۔ انکوائری کمیٹی نے بتایا کہ گزشتہ برس سرکاری سطح پر طے خریداری ہدف سے 25لاکھ ٹن کم گندم خریدی گئی۔ بتایا گیا کہ سندھ نے گندم بالکل نہیں خریدی حالانکہ اسے 10لاکھ ٹن کی خریداری کرنا تھی۔ پنجاب نے 33لاکھ 15ہزار ٹن گندم خریدی جبکہ اس کا خریداری ہدف 40لاکھ ٹن تھا۔ انکوائری رپورٹ میں یہ تضاد بھی سامنے آیا کہ وزارت خوراک قومی رابطہ کمیٹی کو مئی اور جون 2019ء میں یہ بتاتی رہی کہ پاسکو نے خریداری کا مقررہ ہدف پورا کر لیا ہے جبکہ پاسکو نے 40فیصد ضرورت کی گندم نہیں خریدی تھی۔اس انکوائری رپورٹ میں گندم بحران کی دیگر وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں گندم کی چوری میں اضافہ ہوا ہے۔ نجی اور سرکاری سطح پر کسی حساب کتاب اور ریکارڈ کے بغیر گندم سٹاک کی گئی۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ حکومت گندم کی سپلائی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھی۔ اس رپورٹ میں سابق صوبائی سیکرٹری نسیم صادق اور سابق ڈائریکٹر فوڈ ظفر اقبال کو سنگین کوتاہیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔آٹا بحران کے متعلق محکمہ خوراک نے لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے ایک رپورٹ جمع کرائی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پنجاب کی 14فلو ملز بحران میں ملوث رہی ہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی ناجائز منافع خور اسی طرح سرگرم رہے ہیں۔ محکمہ خوراک نے ان ملوں کے لائسنس معطل کرنے کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مختلف انکوائری رپورٹس سامنے آنے اور بعض ذمہ دار قرار دیے گئے افراد کو سزا کے بعد ملک میں نئی فصل آنے پر تمام مسائل حل کر لئے جاتے۔ حالیہ برس گندم کی کم پیداوار کا بڑا سبب بارشوں کا بھاری سلسلہ تھا لیکن یہ بات قرین انصاف ہو گی کہ مقامی کاشت کار کو گندم کی جو قیمت دی جا رہی ہے اس سے لاگت کا خرچ نکالنا مشکل ہے۔ کسانوں کی قابل ذکر تعداد گندم کی بوائی کی جگہ دوسری نقد آور فصلیں لگانے لگی ہے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ سرکاری قیمت خرید میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ کاشت کاروں کو گندم کاشت کرنے کی ترغیب مل سکے۔ اس سلسلے میں کچھ حلقوں کی طرف سے سرکاری قیمت خرید میں اضافے کی مخالفت کو اس لحاظ سے مسترد کیا جا سکتا ہے کہ پیداوارکم ہونے پر جو گندم درآمد کی جاتی ہے اس کی قیمت ہمیشہ مقامی گندم کے نرخوں سے زاید ہوتی ہے۔ ہماری زاید ادائیگی کا فائدہ غیر ملکی کسانوں کو ہوتا ہے۔ یہی فائدہ اگر ہمارے اپنے کسانوں کو میسر آئے تو کیا قباحت ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ ڈویژن میں وفاقی سیکرٹری خوراک نے بتایا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 1900روپے فی من مقرر کی جا رہی ہے۔ یہ ایک کسان دوست فیصلہ ہو گا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ فیصلوں پر عملدرآمد کے نظام کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس نظام میں متعدد نقائص اور کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ حکومت عام آدمی کو سہولت فراہم کرنے کے لئے جو اقدام کرتی ہے نظام کی کمزوری اسے غیر موثر بنا دیتی ہے۔ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں عدم استحکام ایک مستقل بدانتظامی کی شکل اختیار کر گیا ہے جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔