آصف زرداری اور نواز شریف کی آنکھوں پر یا تو پٹی بندھی ہوئی ہے یا پھر یہ دونوں لوگوں سے اتنی دور اپنے محلات میں مقیم رہتے ہیں کہ انھیں نظر ہی نہیں آ رہاکہ ملکی آبادی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ان دونوں صاحبان کو اپنے وجود کے بقاء کی مساعی میں مصروف لوگوں کا جم غفیر نظر نہیں آ رہا ۔ان دونوں کی آنکھیں بند ہیں۔انھیں صرف اپنے جلسے کے شرکاء ہی نظر آتے ہیں جو ان کے حق میں نعرے لگا لگا کر ان کی انانیت کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔تاہم ہمیں یہ دونوں بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ہم جانتے ہیں کہ ان کے جلسے کے شرکاء ملک بھر سے بسوں کے ذریعے کرائے پہ بلائے گئے ہوتے ہیں اور ان سے یہ وعدہ بھی کیا گیا ہوتا ہے کہ جب یہ دونوں صاحبان ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہانے اور پاکستان کو ایک بڑی طاقت بنانے کے کھوکھلے وعدوں پر مبنی اپنی تقریریں خوب گرج گرج کر ختم کر لیں گے تو پھر انھیں چکن بریانی بھی کھلائی جا ئے گی۔ان لوگوں کے کھوکھلے وعدے ہم پچھلے چار عشروں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان کو فی الحال ان سے الگ رکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے وعدوں کی آزمائش اسی وقت ہو سکے گی جب انھیں اقتدار ملے گا۔باقی دونوں صاحبان البتہ دغا باز ثابت ہو چکے ہیں جو ہمیشہ بیچارے عوام کو سبز باغ دکھا کر لوٹ لیتے ہیں۔عوام کو تو وہ بریانی بھی پوری طرح میسرنہیں آتی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کو کوئی چکن ملتا ہے۔ عوام کی آنکھوں کے سامنے ان دونوں نام نہاد لیڈ ر صاحبان میں سے جسے بھی موقع ملے تو یہ اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت میں قومی خزانے سے زیادہ سے زیادہ دولت لوٹ کربیرون ملک منتقل کرلیتے ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں ان کے خوشامدی بھی بڑا پیسہ کما لیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں نقصان کس کا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے پاکستان کا اور اس کے شہریوں کا! واپس آتے ہیں آبادی میں اضافے کے موضوع پر! ہمارا خیال ہے کہ اس ضمن میں نواز شریف، آصف زرداری اور عمرا ن خان کی خاموشی ایک گناہ ہے۔یہ لوگ اس موضو ع پہ بات کرنا ممنوع سمجھتے ہیں۔ مگر کیوں؟کیا فیملی پلاننگ کوئی عفریت ہے جس سے یہ لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس پہ بات کرتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے؟ایک وقت تھااور یہ کو ئی مدتوں پرانی بات نہیں جب خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام پاکستان میں بڑی کامیابی کے ساتھ شروع ہوا تھا اور اس کی بدولت ہر سال شرح پیدائش میں کمی بھی آ رہی تھی۔خاندانی منصوبہ بندی کی مہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور طریقے سے چلائی جاتی تھی۔ چھوٹے خاندان کی افادیت کے موضوعات پہ ٹی وی ڈرامے بھی بنتے تھے جن میں معروف اداکار فنی جوہر کا مظاہرہ کرتے اور حسینہ معین جیسی مصنفہ کے قلم سے لکھے گئے ایسے ڈرامے بڑے معروف و مقبول ثابت ہوتے تھے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے کلینکوں سے متعلق اشتہارات بھی ٹی وی پہ آتے تھے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی مباحثات میں خاندانی منصوبہ بندی کی اصطلاح مفقود ہوتی گئی۔پاکستانی نژاد ڈاکٹر نفیس صادق اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی سربراہ تھیں اور وہ پہلی خاتون تھیں جو اقوامِ متحدہ کے کسی بھی ادارے کی سربراہ بنیں۔انہوں نے بڑی سرگرمی سے پاکستان میں یکے بعد دیگر آنے والے حکومتوں کو خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام اپنانے پہ قائل کیا تھا۔گزشتہ چالیس سالوں کے دوران پاکستان میں جس کی بھی حکمرانی رہی وہ آکر ان سے ملتی رہیں اور اس پروگرام کو جاری رکھنے کے وعدے ان سے لیتی رہیں۔ڈاکٹر نفیس صادق صرف یہ نہیں کہ ان میں سے بعض لوگوں کو ذاتی طور پر جاتی تھیں بلکہ پاکستانی خواتین کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے اپنے جذبے سے بھی انہوں نے ان حکمرانوں کو کافی متاثر کیا ۔انہوں نے جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف جیسے فوجی جرنیلوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان دونوں جرنیلوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ان کے علاوہ ڈاکٹر نفیس صادق نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے بھی رابطے رکھے اور انھیںاس بات پہ آمادہ کرنے کی کوششیں کیں کہ ان کے ادوار میں خواتین کے لئے مزید بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔پھر انہوں نے آصف زرداری سے ان کے دورِ صدارت میں ملاقات کر کے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آبادی میں اضافے کے گھمبیر اور بے قابو ہوتے مسئلے سے ان کی حکومت کیسے نمٹ سکتی ہے۔ہم نے نفیس آپا سے کئی بار پوچھا کہ وہ اپنی سوانح کیوں نہیں لکھتی ہیں؟ فیملی پلاننگ کے شعبے میں ان کی خدمات کے حوالے سے دنیا بھر میں ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہان کی جانب سے انھیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تاہم اپنے کارناموں کا از خود ذکر کرنا شاید انھیں کبھی مناسب معلوم نہیں ہوا لیکن بہر حال اب کیتھلین ملر نے ڈاکٹر نفیس صادق کے بارے میں Champion of Choice کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بڑے پُر اثر اور قائل کن انداز میں یہ بات کی ہے کہ اس وقت کرئہ ارض پہ کوئی ایسا شخص زندہ موجود نہیں جس نے دنیا بھر میںانسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ڈاکٹر نفیس صادق سے زیادہ کوشش کی ہو۔ اپنی اس بات کی سچائی ثابت کرنے کے لئے انہوں نے باقاعدہ اعداد و شمار بھی پیش کئے ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ انیس سو ستر میں یعنی ڈاکٹر نفیس صادق کے پاپولیشن فنڈ آنے سے ذرا قبل دنیا بھر میں اوسطاً فی خاندان چھ بچے ہوا کرتے تھے، جبکہ سن دو ہزار میں یہ شرح تین تک آن گری۔ اسی مدت کے دوران نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں بھی نمایاں کمی آئی۔دوران زچگی عورتوں کی اموات میں بھی چونتیس فی صدکمی آئی۔پاکستان میں تیس سال سے زائد عرصے تک رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمیں متعدد بار ڈاکٹر نفیس صادق کے انٹرویوز کرنے کا موقع ملا۔اس کے علاوہ ہم نے ان کی کئی ایک بین الاقوامی کانفرنسوں کی رپورٹنگ بھی کی۔ایسی تقاریب میں وہ ہمیشہ سب کی نگاہوں کا مرکز ہوتیں اور یہ بات ہمارے لئے وجہ افتخار ہوتی تھی۔لوگ ان کے پروفیشنل ازم کا احترام کرتے لیکن ان کی شخصیت کا انکسار اور وقار بھی دلوں کو چھو جاتا تھا۔ یہ ایک بڑی نایاب خصوصیت ہے۔عموماً جب لوگ اس قدر بلند درجے پر پہنچتے ہیں تو اس قدر انکسار ان کی شخصیت میں نہیں جھلکتا ۔ ہمیں ایک مبصر کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ حقیقتاً قابلِ قدر سوانح وہ ہوتی ہے جو ہماری توجہ ان شخصیات کی طرف مبذول کرتی ہے جن کی مثالی زندگیاں کسی نہ کسی وجہ سے ہماری نگاہوں سے اوجھل رہی ہوتی ہیں۔ڈاکٹر نفیس صادق بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں اور اChampion of Choiceایسی ہی ایک سوانح ہے۔ ذاتی طور پر ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ کتاب بک سٹورز میں ملالہ یوسفزئی کی کتاب کے ساتھ رکھی جانی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سولہ سال کی عمر میں طالبان کو للکارنے کی ہمت کرنے پر ملالہ ہماری طرف سے توصیف و ستائش کی مستحق ہے مگر ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ڈاکٹر نفیس صادق جیسے لوگ بھی ہمارے ہیروز ہیں۔وہ تقریباً نصف صدی تک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی رہی ہیں اورصرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ایک رول ماڈل تھیں۔ان کی سوانح لکھنے والی کہتی ہیں کہ دنیا کے متعدد ممالک کے بے شمار ہوائی سفر کرنے کے بعد اور نیویارک کی بلند و بالا عمارتوں میں سے ایک میںایک کارنرآفس کی مالک ڈاکٹر نفیس صادق اپنے کیرئیر کے اختتام پہ دنیا کی طاقت ور ترین اور بارسوخ ترین خواتین میں سے ایک تھیں۔ ان جیسی خاتون پاکستان میں پھر شاید کبھی پیدا نہ ہو سکے۔انھیں اپنے ملک سے عشق تھا۔انھوں نے اپنے کارناموں کے ذریعے یہ نہیں کہ ہمارا سر صرف فخر سے اونچاکیا بلکہ انھوں نے پاکستانی عورتوں کے مقام کی بہتری کے لئے دن رات انتھک محنت بھی کی۔ عورتوں کی بہبود کے موضوع پر زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی خاموشی اس شعبے میں ڈاکٹر نفیس صادق کی شاندار خدمات کے صریحاً بر عکس ہے۔