مداری کرتب دکھا چکا تو اپنا دامن تماشائیوں کے سامنے پھیلا دیا ، کسی نے کسیرہ دیا ، کسی نے دھیلا۔ اسی دوران ایک درویش مجمع کو چیرتاہوا ، مداری کے سامنے آگیا۔ مداری خوش ہوا کہ انعام ملنے والا ہے اور وہ بھی شاید تگڑا۔ ’’لائیے میرا انعام اور میری جھولی میں ڈال دیجیے‘‘مداری کے لہجے میں پیشہ ورانہ مٹھاس اتر آئی۔ ’’کس چیز کا انعام چاہیے تمہیں، کونسا کارنامہ انجام دیا ہے تم نے؟ ‘‘ درویش نے کڑک کر پوچھا۔ ’’میں مداری ہوں، برسوں کی ریاضت ہے، تماشا دکھاتا ہوں ، لوگ مجھے انعام دیتے ہیں جس سے میں اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہوں‘‘ مداری نے جواب دیا۔ ’’ہم تو بھئی، تماشے سے نہیں بہلتے ، تماشے کا تماشے دکھا سکتے ہو تو دکھائو ورنہ بوریا بستر لپیٹو اور دفع ہوجاو‘‘ درویش جلال میں آچکا تھا۔ اب مداری کا ماتھا ٹھنکا، اس نے درویش پر سے نظریں ہٹائیں اور مجمعے سے مخاطب ہوا ،’’میں بچہ تھا کہ اپنے گرو کے ساتھ یہاں آیا کرتا تھا، وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن میں نے روایت کو جاری رکھا ہوا ہے آج میں ہی نہیں میرے گرو کو بھی اس شخص نے چیلنج کر دیا ہے۔ میں مقابلہ کرونگا ، اگر ہار گیا تو ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلا جائوں گا‘‘۔ مجمعے میں جوش وخروش بڑھ گیا ، تماشا تو دیکھتے ہی تھے آج تماشے کا تماشا دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ’’ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تماشے کا تماشا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہوگا، پھر بھی اگر تم نہیں مانتے تو تمہارے مرضی، دکھائو ہمیں وہ جو تمہارے گر و نے سکھایا ہے‘‘ درویش نے کہا۔ مداری نے پہلا کرتب دکھایا ، کچھ نہ ہوا، دوسرا اور تیسرا ، ناکام۔ درویش نے اسے روک دیا۔ تمہارا جادو ناکام ہوگیا۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اب تم یہاں سے چلے جائو،‘‘ لیکن مداری اڑ گیا۔ ٹھیک ہے، میں اپنا فن نہیں دکھا سکا، آپ اپنا تماشا دکھاو‘‘۔ ابھی اس کے الفاظ منہ سے نکل رہے تھے، کہ درویش نے اسے گریبان سے پکڑا اور اسے قریبی دیوار سے باہر اچھال دیا، ساتھ ہی درویش دیوار پر سے کودا اور لمحوں میں مداری واپس ساکت اور جامد مجمع کے درمیان دھم سے آگرا ، درویش اس کے سرپر کھڑا تھا، ’’تماشے کا تماشا تم نے دیکھ لیا ، یاکچھ دیکھنا باقی ہے‘‘۔ مداری درویش کے قدموں سے لپٹ گیا ’’ دیکھ لیا مہاراج، غلطی ہوگئی، معاف کردیجیے‘۔ درویش نے اپنا صافہ کاندھے پر رکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے مجمعے کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ مداری نے بھی وہاں سے جانے کے لیے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا تو مجمع جیسے جا گ گیا۔ ’ بھئی ایسے کہاں جاتے ہو، ہمیں بھی تو بتا ئو کہ تم نے کون سا تماشے کا تماشہ دیکھا ،‘‘۔ مداری نے کافی پس وپیش کی لیکن جب اس نے دیکھا کہ مجمع پیچھے ہٹنے والا نہیں تو گویا ہوا، ’’ جیسا کہ آپ لوگوں نے دیکھا کہ مجھے درویش نے دیوار کے پار پھینک دیا تھا۔ میں وہاں گرا تو یہ مجمع، یہ جگہ ، یہ مقام سب میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ایک جنگل، بیابان میرے سامنے تھا۔ میرا سامان، میری جمع پونجی، میرے بیوی بچے کہاں ہیں، یہی سوچ کر میں نے دوڑ لگادی، ہانپتے کانپتے ایک ٹیلے پر جاچڑھا، سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ دریا ہے۔ جیسے تیسے وہاں پہنچا، پانی پیا، سوچا گھر بار تو پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے، نہا کر تازہ دم کیوں نہ ہو لوں۔ ڈبکی لگائی لیکن سر باہر نکالا تو بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کنارے پر کھڑا تھا، میں ایک حسین و جمیل دوشیزہ بن چکی تھی اور بادشاہ کے حرم میں داخل کردی گئی۔ میرے وہاں پر سات بچے ہوئے ، ایک دن اداس تھی کہ کنیز نے مجھے دریا کی سیر کو جانے کی صلاح دی۔ کنیزوں کے جلو میں دریا پر چلی گئی ، سوچا کہ نہا لوں، ڈبکی لگائی ، سر باہر نکالا، کنیزیں وہاں سے غائب ہوچکی تھیں، اور میرا یہ لباس میرے سامنے پڑا تھا۔ کنارے پر حیران وپریشان بیٹھا تھا، کہ درویش آن موجود ہوا ،دہاڑا ’’ واپس چلو،تماشے کا تماشہ ختم ہوگیا ہے‘‘، مجھے گردن سے دبوچا اور یہاں لا پٹخا‘‘۔یہ واقعہ بہاولپور کے نواح میں ،احمد پور روڈ پر ،واقع ایک نواحی قصبے ’ گوٹھ بخشن خان ‘‘ کا ہے جو اب خانقاہ شریف کے نام کے ایک قصبے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا وہاں پر بچیوں کاہائی سکول قائم ہے۔ یہ سکول ایک بازار میں آچکا ہے جو ویگنوں کے اڈے سے شروع ہوتا ہے اور اسی درویش کے مزار پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ صبح ہوتے ہی ’تماش بین‘ جمع ہونا شروع ہوجا تے ہیں اور چھٹی کے وقت تک گیٹ کے سامنے ایک ہجوم لگ جاتا ہے، گیٹ کھلتا ہے لیکن اس ہجوم کو نہ وہ مداری نظر آتا ہے اور نہ وہ درویش جس نے ’تماشے کا تماشا‘ دکھایا تھا۔ استانیاں اور بچیاں سرنہواڑے چادروں اور دوپٹوں میں لپٹی ،ہجوم کو چیرتی گھروں کو چلی جاتی ہیں تو یہ گیٹ دوبارہ بند ہوجاتا ہے۔ لیکن ہجوم شام کا دھندلکا پھیلنے تک وہیں ٹکا رہتا ہے۔ اہل علاقہ پریشان ہیں کہ وہ اپنی بچیاں تماش بینوں میں گھرے سکول کیسے بھیجیں، علاقے میں کوئی دوسرا ہائی سکول نہیں ہے،بہاولپور دور ہے، بہت سی بچیاں وہاں پہنچ نہیں پاتیں، محکمہ تعلیم کو والدین درخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں کہ سکول وہاں سے شفٹ کیا جائے لیکن محکمہ تعلیم کو سکول کے باہر ہجوم کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ بچیوں کی وہ تعداد نہیں ہورہی جو حکومت کو اسے کالج کا درجہ دینے پر مجبور کرسکے۔ درویش کے خانوادے ہر الیکشن میں ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹیں جیتتے ہیں وہ بھی اہل علاقہ کی پریشانی کو نہیں سمجھ رہے۔ انہیں یاد نہیں کہ جس درویش کی وجہ سے انہیں یہ مقام اور مرتبہ ملا ہے ، اسے اس جگہ پر کسی مداری کا مجمع لگاناپسند نہیں تھا، اپنی وجہ سے نہیں کہ وہ تو سیلانی طبیعت درویش تھا، بلکہ اس وجہ سے کہ یہاں قریب اس کی منہ بولی بہن کا گھر تھا۔ درویش کی وفات یہاں سے سیکڑوں میل دور ، دھریجی ،میں ہوئی تھی لیکن اس کی وصیت تھی کہ اسے ’گوٹھ بخشن خان‘ میں دفن کیاجائے کیونکہ اس نے اپنی بہن سے ایسا وعدہ کیا تھا۔ اہل علاقہ نے اس مزار پر لنگر چلانے کے لیے اپنی زمینیں ہبہ کیں ، اس کے خانوادوں کو ووٹ دیتے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف خدا کا برگزیدہ بندہ تھا بلکہ ایک غیرت مند بھائی بھی تھا۔