گوادر میں ملک دشمن طاقتوں کا ایک اور منصوبہ سکیورٹی اداروں اور ان کے جرات مند اہلکاروں نے ناکام بنا دیاہے۔ جدید خودکارہتھیاروں سے لیس دہشت گرد سکیورٹی اداروں کی یونیفارم پہنے ہوئے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں داخل ہوئے۔ دہشت گردوں نے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ مزاحمت پر ہوٹل کے تین سکیورٹی گارڈ شہید کر دیے گئے۔ حملے کی اطلاع پر سکیورٹی فورسز نے فوراً آپریشن شروع کر دیا جس میں چار دہشت گرد مارے جانے کی اطلاع ہے۔ ہوٹل میں مقیم تمام مہمانوں کو حفاظت سے نکال لیا گیا۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ آپریشن میں نیوی کے کمانڈوز‘ فوج اور فرنٹیئر کور کے دستوں نے حصہ لیا۔ کچھ عرصہ سے بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی دکھائی دینے لگی ہے۔12اپریل 2019ء کو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا‘ اس حملے میں 20ہزارہ شہید اور 48زخمی ہوئے۔12اپریل کو ہی چمن میں ہونے والے دھماکے میں دو افراد جاں بحق اور 10زخمی ہوئے۔18اپریل کو مکران کوسٹل ہائی وے پر ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سے مسافروں کو اتارا گیا اور شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد 14کو شہید کر دیا گیا۔ ان میں نیوی کے اہلکار بھی شامل تھے۔9مئی کو دو کان کن اور تین ایف سی اہلکاروں کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے عین اگلے روز دہشت گردوں نے گوادر کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ کردیا۔ گوادر اور بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا مقصد حکومت کی ان کوششوں کو ناکام بنانا ہے جو وہ اس صوبے کے عام لوگوں کی پسماندگی اور محرومی کو دورکرنے کے لئے کر رہی ہے۔ چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پختون تحفظ موومنٹ کی قیادت سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ بیرون ملک جا کر ان بلوچ تنظیموں سے کیوں ملاقات کرتے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کو پھیلانا چاہتی ہیں۔ ان کے اس سوال میں دراصل یہ بات بھی مخفی تھی کہ پی ٹی ایم اور بعض علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں۔ ان تنظیموں کی قربت کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے اور بلوچستان کو بدامنی کا شکار کرنا ہے۔ بلاشبہ ان رپورٹس کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے جن میں بتایا جا رہا تھا کہ ہمسایہ ملک بعض عالمی طاقتوں کی مدد سے بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ چند ہفتے قبل بس سے اتارکر مارے گئے 14افراد کے واقعہ میں ایسے شواہد سامنے آ چکے ہیں جن سے مقامی غداروں اور سرحد پار سے آنیوالے دہشت گردوں کی مشترکہ کارروائیوں کا پتہ چلتا ہے۔ گوادر پاکستان کے مستقبل کی ایک ترقیاتی بنیاد ہے۔ یہ علاقہ ایک طرف مقامی آبادی کو روزگار‘ تعلیم‘ صحت اور رہائش کی بہتر سہولیات فراہم کر سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو سمندری تجارت کے لئے ایک نئی بندرگاہ فراہم کر رہاہے۔ سی پیک منصوبوں پر اب تک 50ارب ڈالر کے اخراجات ہو چکے ہیں۔ کوسٹل ہائی وے سمیت کئی ترقیاتی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ ان سڑکوں،ریل اور جدید ایئر پورٹ کے ذریعے گوادرکو پورے ملک سے جوڑا جا رہا ہے۔ جلد ہی عالمی سرمایہ کاروں کو گوادر لانے اور لے جانے کے لئے پروازوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے‘ تحریک انصاف کی حکومت نے گوادر کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اس شہر میں صنعتوں کے قیام کے لئے تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان پر کام جاری ہے۔ حکومت کا یہ موقف درست ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ فوری طور پر پاکستان لانے کے لئے گوادر میں صنعتوں کا قیام وقت ضائع کئے بغیر ہونا چاہیے۔ اس شہر کے باشندوں کے وہ مسائل نہیں جو کراچی‘ لاہور یا کسی دوسرے بڑے شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں دہشت گرد تنظیموں کا باہمی اشتراک اس شہر اور پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش ہے۔ گوادر کی ترقی کے لئے آئندہ پانچ برسوں میں جن منصوبوں کو مکمل کیا جا رہا ہے ان میں گوادر آئل سٹی کا قیام‘ گوادر شہر کی ماسٹر پلان کے مطابق تعمیر‘ گوادر شہر کے لئے ریگولیٹری فریم ورک‘ ماہی گیری اور سمندری خوراک کے لئے منصوبوں کی تعمیرسے برآمدات میں تیس فیصد اضافہ ہو سکے گا۔ گوادر میں سمندری سائنس اور تحقیق کا مرکز قائم کر کے نئے علوم سے استفادہ کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کوسٹل ٹورازم کے تصور کو حقیقت بنانے پر کام شروع ہو چکاہے۔ پاکستان نے جب سے دوست ملک چین کے تعاون سے سی پیک منصوبوں پرکام شروع کیا ہے۔ بلوچستان میں مسلح کارروائیاں اور دہشت گردی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے ہر دم دعا گو رہتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ سرداروں کے مفادات نے اس خوبصورت صوبے کو پسماندگی کا شکار بنا دیا۔ جب کبھی ریاست نے عام بلوچی کو ریاستی امور میں شراکت دار بنانے کا سوچا مفاد پرست عام آدمی کی نمائندگی کی آڑمیں ریاستی وسائل پر قابض ہو گئے جو پہلے خود اپنے لوگوں کا استحصال کر رہے تھے۔ بلوچستان میں بدامنی کی کارروائیوں کے پیچھے کون ہے؟ اب یہ بات راز نہیں رہی۔ کلبھوشن جادیو کی گرفتاری کے بعد بہت سی معلومات سکیورٹی اداروں کے علم میں آ چکی ہیں۔ گوادر کو ہدف بنا کر دشمن ہمیں غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ گوادر اور بلوچستان میں سی پیک کی حفاظت کے لئے فوج نے الگ فورس کو فرائض سونپ دیے ہیں۔ جس تیزی سے دہشت گرد اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں ضروری ہے کہ ان کے خلاف اسی تیز رفتاری سے آپریشن کیا جائے۔ پاکستان ایک اہم تاریخی موڑ پر ہے اس موڑ پر قوم‘ سکیورٹی اداروں اور سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر بدخواہوں کے عزائم ناکام بنانا ہوں گے۔