سندھ کے نئے گورنر کے لیے سب سے پہلے ممتاز بھٹو کا نام آیا۔ سوشل میڈیا پر یہ اسٹیٹس زخمی پرندے کی طرح کچھ دیر تک پھڑپھڑاتا رہا اور پھر خاموش ہوگیا۔ ویسے بھی سوشل میڈیا پر خبروں سے زیادہ خواہشات کا اظہار ہوتا ہے۔ معلوم نہیں یہ خواہش کس کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں سندھ کا گورنرذوالفقار علی بھٹو کا وہ ٹیلینڈ کزن بنے جس کی گزشتہ چار دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی کسی بھی لیڈرکے ساتھ نہیں بنی۔ ممکن ہے کہ یہ بات ممتاز بھٹو کے کسی چاہنے والے نے فیس بک پر فیڈ کی ہو اور بغیر تصدیق کیے پرنٹ میڈیا کے ایک حصے نے اس اطلاع کو اخبار کی زینت بھی بنادیا ہو۔ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے سندھ میں اہم ذمہ داری دینے کے لیے ممتاز بھٹو کو بنی گالہ بلایا۔ حالانکہ اس وقت ممتاز بھٹو کراچی میں تھے اور وہ خود اس افواہ کے سچ ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔ مگر یہ کس طرح ممکن تھا؟ عمران خان سندھ میں پیپلز پارٹی کے سخت ترین سیاسی مخالف کو گورنر کس طرح بناسکتے ہیں؟ خاص طور اس وقت جب پیپلز پارٹی نے عمران خان کی فرینڈلی اپوزیشن بننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان بفرزون کا کردار ادا کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی پونچھ پر ممتاز بھٹو جیسے دبنگ سیاسی دشمن کا پاؤں کس طرح رکھواسکتی ہے؟ ویسے بھی ایک عرصے سے سندھ میں اردو آبادی کو مطمئن کرنے کے لیے گورنر ہاؤس میں اردو بولنے والے کو مقرر کیا جاتا ہے۔ ریاست کی سیاست کو اس بات میں توازن نظر آتا ہے کہ اگر سندھ کا چیف منسٹر سندھی زباں بولنے والا ہو تو پھر سندھ کا گورنر اردو زباں بولنے والا ہونا چاہئیے۔ یہ روایت ستر کی دہائی سے چلی آ رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ممتاز بھٹو کو سندھ کا گورنر بنا کر سیاسی غلطی کی یا نہیں؟ سندھ کی سیاسی تاریخ اب تک اس سوال پر الجھی ہوئی ہے۔ مگر بیگم رعنا لیاقت علی خان سے لیکر عشرت العباد تک مہاجرپس منظر رکھنے والی شخصیات نے عام طور سندھ کی اردو آبادی کے لیے کون سے کارنامے سرانجام دیے ہیں؟ اس سوال پر بھی ہمیں سوچنا چاہئیے۔ خاص طور اس وقت جب وفاقی حکومت سندھ کو ایک نئے گورنر کے ہاتھوں میں سپرد کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے۔ سندھ کے نئے گورنر کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے اب تک کسی نام کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا مگر باخبر رپورٹر مستقل طور پر عمران اسماعیل کا نام لے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر سندھ کی ذمہ داری عمران اسماعیل کے حوالے کی جائے مگر اس بار عمران خان جس طرح نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں ؛ اس لیے انہیں گورنر سندھ کے لیے اپنے ایسے نمائندے کا انتخاب کرنا چاہئیے جو سندھ کی ایک نئی روایت کا بنیاد رکھے۔ ویسے تو سندھ میں چیف منسٹر کے عہدے سے بھی کم زیادتی نہیں ہوئی مگر گورنر کے مقام کو جس طرح سیاسی سودے بازی میں استعمال کیا گیا ہے وہ داستان ہماری سیاسی تاریخ کے لیے انتہائی اذیت ناک ہے۔ گورنر وفاقی حکومت کی طرف سے کسی صوبے میں ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے مگر سندھ میں یہ بات جان بوجھ کر فراموش کی گئی ہے کہ گورنر کی ذمہ داری صرف کراچی تک نہیں۔ سندھ میں جو بھی گورنر آئے تو صرف کراچی کے لیے نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے آئے۔ عام طور پر سندھ کے گورنر وفاقی اور صوبائی حکومت میں معاملات بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کی تاجر برداری سے ملتے ہیں۔ قومی دن پر مزار قائد پر حاضری دیتے ہیں۔ اور جب قلندر شہباز یا شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس کی تقریب ہوتی ہے تو وہ پولیس کے سخت پہرے میں صوفی درویش کی مزار پر چادر چڑھا کر اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔سندھ میں گورنر کو گورنر ہاؤس تک محدود کردیا گیا ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ کراچی میں موجود دیگر ممالک کے قونصل جرنلز سے ملاقاتیں کرے اور جب شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوجائے تو وہ کے الیکٹرک کو فون کرے اور کبھی کبھار کسی یونیورسٹی کے کانوکیشن میں کامیاب طلباء کو ڈگریاں دے۔ ایک گورنر کا بہت بڑا کردار ہوسکتا ہے اور وہ کردار ہر صورت میں پورے صوبے کے لیے ہونا چاہئیے۔ ممتاز بھٹو اور میر رسول بخش تالپور کا تعلق تو اندرون سندھ سے تھا اس لیے وہ سندھ میں ہونے والی ہر تقریب میں پہنچ جاتے تھے مگر سندھ کے ان سندھی گورنروں کے بعد اگر کسی گورنر نے کراچی سے نکلنے کی تکلیف گوارا کی تھی تو وہ پیپلز پارٹی کے دانشور اور کمال اظفر تھے ۔ وہ کمال اظفر جنہوں نے بینظیر بھٹو کو ’’نئے سماجی معاہدے‘‘ کا تصور دیا تھا ۔ کمال اظفرکراچی سے نکل کر اندرون سندھ جاتے تھے مگر ان کے ہیلی کاپٹر کا رخ زیادہ تر تھر کی طرف ہوتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی بیگم کو تھر کی ثقافت سے بڑا لگاؤتھا۔ مگر سندھ صرف تھر نہیں ہے۔ سندھ میں پس ماندگی صرف تھر تک محدود نہیں ہے۔ سندھ کے پس ماندہ علاقوں میں وہ کاچھہ بھی آجاتا ہے جو جام شورو سے شروع ہوتا ہے اور سیون سے نکل کر دادو تک جاتا ہے۔ وہ پہاڑی علاقہ جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ اگر وہاں مون سون کی بارشیں بھی ہوتی ہیں تب بھی اس علاقے کے کسان دھرتی میں بیج بوکر اپنی بھوک نہیں مٹاسکتے۔ ایک برس دو برس یا چند ماہ کے لیے سندھ کے گورنر بننے والوں کے نام تو بہت ہیں مگر جو شخص سندھ کا چودہ برس تک گورنر رہا اس کا نام ڈاکٹر عشرت العباد ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد کا نام ایم کیو ایم نے پیش کیا تھا مگر اس کی سیاست سے آخر میں ایم کیو ایم بھی تنگ آگئی تھی۔ وہ دن اب تک سب کو یاد ہونگے جب ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کی حکومت سے ناراض ہوجاتی اور راضی ہونے کے لیے ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ گورنر سندھ عشرت العباد کو عہدے سے ہٹاؤ۔ مگر اس بات کو کون بھلا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے گورنر کے لیے صدر آصف زرداری متحدہ کے قائد کی منت کرتے تھے اور انہیں دبئی سے واپس بلانے کے لیے اپنا صدارتی طیارہ بھیجتے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر ہاؤس میں 14 برس تک عیاشی کی مگر انہوں نے ان 14 برسوں میں سندھ تو کیا کراچی کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ وہ کبھی کبھار آرٹس کونسل کی دعوت پر چلے جاتے اور وہاں گٹار بجا کر داد حاصل کرتے۔ سندھ میں گورنر اس بار کس کو بنایا جائے گا؟ا س سوال کا اعلان ہونے تک جواب دینا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ اقتدار کے حلقوں میں آخر تک جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس وقت تک عمران اسماعیل کا نام سر فہرست ہے۔ اگر سندھ کے گورنر بننے کا اعزاز انہیں حاصل ہوتا ہے تو سندھ کو اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ سندھ کو اس بات پر بھی اعتراض نہیں ہوگا اگر نیا گورنر پرانے گورنرز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو کراچی تک محدود رکھتا ہے ۔ مگر یہ عمل گورنر کے عہدے کے شایان شان نہیں ۔ سندھ کے گورنر کو کراچی کا نہیں بلکہ پورے سندھ کا گورنر ہونا چاہئے۔ گورنر کو صرف اردو آبادی کے تحفظات کو مدنظر رکھنے کے بجائے پورے سندھ کے عوام کوپیش آنے والے مسائل حل کرنے میں اپنا اختیار استعمال کرنا چاہئیے۔ سندھ میں اگر تحریک انصاف کا گورنر صرف تعلیم اور صحت کے شعبوں پر نظر رکھے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ آج تک سندھ میں ان دونوں شعبوں میں جتنی کرپشن ہوتی رہی ہے اس کا حساب رکھنا بھی مشکل ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی نے دس برس تک بغیر کسی روک ٹوک کے حکومت کی ہے مگر ان دس برسوں کے دوران ابھی تک سینکڑوں اسکول بند پڑے ہیں اور سینکڑوں اسکولوں کے بچے عمارت نہ ہونے کے باعث درختوں کی چھاؤں میں علم حاصل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سندھ کے دیہی ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں اور دوائیاں؛ وہاں جب بارش ہوتی ہے اور سانپ نکلتے ہیں تب سانپ کے کاٹے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ سندھ کے لوگوں سے پیپلز پارٹی نے ’’روٹی؛ کپڑے اور مکان‘‘ کا وعدہ کیا تھا مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھو دریا کے ورثاء سے پینے کا صاف پانی بھی چھین لیاہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بنائے گئے واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس ہانی مسلم متعدد بار سپریم کورٹ کو بتا چکے ہیں کہ سندھ کے اکثر شہروں میں عام لوگ وہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس میں انسانی فضلہ شامل ہے۔ اگر سندھ کے نئے گورنر اہلیان سندھ کو صاف پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس اندھیرے میں گورنر ہاؤس کی دیوار پرصرف ایک امید اور عمل کا ایک چراغ بھی روشن ہوجائے تو بڑی بات ہے۔