مقبوضہ کشمیرمیں ہورہے مظالم کی تاریخ بتارہی ہے کہ جب کشمیریوں پرمصائب کے کسی نئے سلسلے کاناپاک اورمذموم منصوبے کوعملایاجاناہوتودہلی کے منصوبہ ساز مقبوضہ کشمیرمیں اپنے مہرے بدل دیتے ہیں اوراس طرح آلہ قتل کادستہ تبدیل کیا جاتاہے۔ بھارت نوازنیشنل کانفرنس اورعمرعبداللہ کے بجائے بھارت نوازپیپلزڈیموکریٹک یاپی ڈی پی اورمحبوبہ کوکشمیریوںکے قتل میں ہلہ شیری دینے کے لئے سامنے لایاجاتاہے یا پی ڈی پی اورمحبوبہ مفتی کے بجائے نیشنل کانفرنس دہلی کے آلہ قتل کادستہ بن جاتے ہیں۔ جب کشمیریوں کے قتل پردہلی کاجی نہیں بھرتا تو پھرگورنرراج کانفاذ عمل میں لاکررہی سہی کسرکسی ایل کے جہاہ،کسی جگموہن ،کسی جنرل گریس چندر سکسینہ ، یاکسی این این ووہرہ کے ذریعہ سے نکالی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی کہانی دہرائی گئی کہ جب مقبوضہ جموںوکشمیر میں آٹھویں مرتبہ گورنر راج کا نفاذ ہوا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میںسب سے پہلے 6 مارچ1977ء کو اس وقت گورنرراج نافذ ہواکہ جب شیخ عبداللہ نے محاذ رائے شماری کی بائیس سالہ تحریک کو پٹخ کر 1975ء میں اندراگاندھی کے ساتھ شرمناک ایکا کرکے بھارت میں برسراقتدار اندرا گاندھی اوراس کی جماعت کانگریس کی حمایت سے مقبوضہ کشمیرسرکار قائم کی تھی لیکن دونوں پارٹیوں کے مابین نبھاہ نہ ہونے کے نتیجہ میں یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور کانگریس نے حمایت واپس لے کر شیخ عبداللہ کی سرکارگرادی ۔بھارت نواز شیخ عبداللہ سے لیکرمفتی سعید تک وقتاً فوقتاً سات مرتبہ گورنررول نافذ کیاگیاجبکہ آج چالیس برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد صورتحال نے وہی کہانی دہرائی ہے جوشیخ عبداللہ اورکانگریس کے مابین پائی گئی تھی۔کیونکہ اقتدار میںبھارت نواز پی ڈی پی کی اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ظاہری طور پر اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری میں مطمئن نہ تھی اوروہ چاہتی تھی کہ کشمیریوں پرمظالم کے مزیدشکنجے کس کربی جے پی کوبھارت کی قومی سطح پر اسکی مزیدمقبولیت دلانے کے گراف میں بتدریج اضافہ کرے ۔بی جے پی جموں نے محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی کولیشن سرکارکواپنی حمایت واپس لیکر دھماکہ اس لئے کر دیا تاکہ 2019ء کو بھارت میں ہونے والے الیکشن کے مباحث کا رخ بی جے پی کے حق میں ہوسکے۔ چنانچہ کشمیرمیں گورنرراج کے نفاذ کے ساتھ ہی مودی کے مراعات یافتہ مختلف میڈیا چینلوں کے ذریعہ بھاجپا کے اس اقدام کوبھارت کی قومی سلامتی کے تئیں بی جے پی کی فکرمندی کے طور پرپیش کیا جانے لگاہے اوراسے سراہاگیا ۔ بھارتی قابض فوج کی طرف سے رمضان میں نام نہاد جنگ بندی کے خاتمے کے فورا بعد 19 جون 2018 ء کو اچانک نئی دہلی میں بی جے پی کے قومی سیکرٹری اور مقبوضہ جموں کشمیر معاملات کے انچارج رام مادھو نے کشمیر کے بھارت نوازٹولے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرکے کٹھ پتلی وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور ان کی ٹیم پر بجلی گرادی اور محبوبہ کے پاس گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کارباقی نہ رہا ۔ اس طرح تین سال تک جاری رہنے والی مخلوط کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں سے کوئی پی ڈی پی یا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی پی ڈی پی یا بی جے پی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں دلچسپی رکھتی ہے۔ دہلی سے کشمیر تک تمام تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار اس بحث میں الجھ چکے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ۔کس کا کیا مفاد ہے اور اور اس کے بعد کیا ہونے جارہا ہے لیکن دہلی کے تخت پر براجماں حکمران چاہے وہ کانگریس کے ہوں یا بی جے پی کے یہ واقعہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ان کے سیاسی فریب کاریوں کی ستر سال پر محیط سیاسی فریب کاریوں کی تاریخ کاتسلسل ہے جس نے کشمیریوں کے اذہان اورقلوب کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا ہے۔