معزز قارئین!۔ 3 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مامون اُلرشید صاحب نے لاہور کے ایک شہری خواجہ محسن عباس اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دَوران ، سرکاری وکیل سے پوچھا کہ ’’ کیا گورنر ہائوس لاہور کی دیواریں گرا دِی گئی ہیں؟‘‘ تو، وکیل نے جواب دِیا کہ ’’ جی ہاں!۔ دیواریں گرانے کا کا م شروع ہو چکا ہے ۔ دراصل گورنر ہائوس ایک صدی سے بھی پرانا ہے‘‘ فاضل جج نے پوچھا کہ ’’ گورنر ہائوس کِس کے کنٹرول میں آتا ہے؟ ‘‘ ۔ عدالت کو آگاہ کِیا گیا کہ ’’ پنجاب حکومت کے کنٹرول میں تاہم ، اُس کی دیواریں گرانے کے لئے پنجاب کی صوبائی کابینہ سے اجازت نہیں لی گئی، گورنر ہائوس کی عمارت کونہیں گرایا جا رہا ، صِرف دیواریں گرائی جا رہی ہیں‘‘۔ اِس پر جسٹس مامون اُلرشید صاحب نے کہا کہ ’’ مَیں لاہور میں پیدا ہُوا تھا اور لڑکپن سے گورنر ہائوس کی دیواروں کو دیکھ رہا ہُوں ، گورنر ہائوس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہیے‘‘۔ عدالت نے وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہُوئے اپنے ریمارکس پر کہا کہ ، عدالت کو مطمئن کِیا جائے کہ ’’پنجاب کی کابینہ کے بغیر ایسے احکامات کیسے جاری کئے گئے؟‘‘۔ درخواست گذار نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کِیا تھا کہ ’’ گورنر ہائوس ہمارا ثقافتی ورثہ ہے اور اِس کی دیواروں کو گرانا "Antiquate Law" کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔ 3 ستمبر ہی کی شب کو الیکٹرانک میڈیا پر کئی اینکر پرسنز سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ "Governor Houses" (انگریزوں کی) غلامی کی علامت ہیں‘‘۔ محترم وزیراعظم!۔ جانتے ہی ہوں گے کہ ’’ پاکستان میں انگریزی دَور میں تعمیر کی گئی بے شمار عمارتیں ہیں اور اُن میں قائم "Institutions" (تعلیمی ، سماجی اور فلاحی ادارے ) ابھی تک قائم ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہے اورہم اُس وقت بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور ہم اپنے غیرملکی "V.V.I.P" مہمانوں کو اِس تاریخی ورثہ کی ’’ زیارت‘‘ (یاترا) کراتے ہُوئے فخر محسوس کرتے ہیں ؟۔ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ کا دَور ختم ہُوا تومتحدہ پنجاب کے تیسرے انگریز گورنر "Mr. Donald Friell Mcleod" (1865ء سے 1870ئ) تک اپنے عہدے پر فائز رہے ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ؔ جو، پہلے بہادر شاہ ظفر کے قصیدے لکھا کرتے تھے ، اُنہوں نے انگریز گورنر کو قصیدہ لکھ کر بھجوایا ، جس کا مطلع تھا/ ہے… کرتا ہے چرخ روز ، بصد گونہ احترام! فرما نروائے کِشور ؔپنجاب کو سلام! بقول مرزا غالب ۔ ’’ کِشور پنجاب‘‘ ( یعنی۔ اقلیم، ملک اور ولایت ِپنجاب ) کے فرما نروا ( گورنر کو ) آسمان ہر روز نہایت عزت و احترام سے سلام کرتا تھا۔ گورنر پنجاب ڈونلڈ میکلوڈ نے جس کے نام سے اب بھی لاہور میں ایک سڑک کا نام "Mcleod Road" ہے ۔ ’’ لاہور میوزیم‘‘ قائم کِیا تھا اور "Punjab Murderous Outrages Act 1867" ۔ نافذ کِیا تھا۔ "Governor Aitchinson" معزز قارئین!۔ اپریل 1882ء سے اپریل 1887ء تک "Sir Charles Umpherston Aitchinson" متحدہ پنجاب کے گورنر تھے ۔ اُنہوں نے ’’ سِدھ نائی اور سہاگ پارا کالونیاں تعمیر کرائیں۔ نوابوں اور جاگیرداروں کے بیٹوں کی معیاری تعلیم کے لئے لاہور میں ایچی سنؔ کالج قائم کیا۔ یورنیورسٹی آف دی پنجاب قائم کی اور یونیورسٹی آف ویٹرنیٹی اینڈ اینیمل سائنسزقائم کی ۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کی "Creation" کی اور ’’پنجاب پبلک لائبریری ‘‘ کی۔ ایچی سن کالج لاہور کے فارغ اُلتحصیل ، طلبہ میں محمد رضا شاہ پہلوی ( جو بعد میں آریہ مہر شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کہلائے) ایچی سن کالج ہی کے فارغ اُلتحصیل تھے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ ماہ ملائیشیا میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہُوئے انکشاف کِیا تھا کہ ’’ ملائیشیا کے بادشاہ کے بیٹے (شہزادے) ایچی سن کالج لاہور میں میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں اور شاہ محمود قریشی بھی ۔ یقینا ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کرنا وزیراعظم عمران خان کے لئے باعث ِ فخر ہے اور معزز قارئین !۔ میرے لئے بھی کہ ’’ قائداعظمؒ کے پاکستان کی برکت ہے کہ کئی سال سے امریکہ اور برطانیہ میں "Settle" میرے چار بیٹے بھی ایچی سن کالج کے فارغ اُلتحصیل ہیں۔ 15 جنوری 1999ء کو اسلام آباد میں میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کی شادی میں جناب عمران خان نیازی تشریف لائے تھے۔ ذوالفقار علی چوہان اور میرے دوسرے تین بیٹے افتخار علی چوہان ، انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان مجھے2014ء سے "Father Tax" بھجوارہے ہیں ۔ اِس لئے کہ شریف برادران کو میری پالیسی پسند نہیں تھی اور مَیں اُن کی پالیسی کو بھی پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ بند کردِیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے دونوں بیٹے (22 سالہ سلیمان عیسیٰ خان اور 19 سالہ قاسم خان ) اگر پاکستان میں ہوتے تو ، وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے ہی جناب عمران خان اُنہیں یقینا ایچی سن کالج ہی میں تعلیم دِلواتے ۔ ( کسی دینی مدرسے میں ہر گز نہیں) محترم وزیراعظم صاحب!۔ آپ ’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے کی جدوجہد جاری رکھیں لیکن ،16 دسمبر 1971ء کو دولخت ہونے کے بعد ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ کو (جسے جنابِ بھٹو نے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ) ’’نیا پاکستان‘‘ کا نا م دِیا تھا ، اُس کی ایک ایک عمارت اور دیوار تو ہمارا تاریخی ورثہ ہے اور اُس ورثے کی حفاظت کرنا تو ، پوری قوم کی ذمہ داری ہے ۔ اِس لئے دیواریں گرانے سے پہلے بہت ہی سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ؟۔ بے شک وزیراعظم عمران خان اگر چاہیں تو ، 700 کنال کے رقبے میں پھیلے ہُوئے گورنر ہائوس لاہور اور دوسرے صوبوں کے گورنر ہائوسز میں یونیورسٹیاں قائم کرادیں یا فلاحی ادارے ، کسی کو کیا کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ لیکن ، فی الحال گورنر ہائوس لاہورکی دیواریں توڑنے کا تو، لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لے لِیا ہے … آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا؟ معزز قارئین!۔ امیر اُلمومنین حضرت علی مرتضیٰ ؑ نے اپنے ایک گورنر مالک ؔبن اُشتر کواپنے ایک خط میں لِکھا تھا کہ’’ یاد رکھو!۔ جِس کرسی (گورنر کی کرسی) پر تم بیٹھے ہو، اگر مستقل ہوتی تو آج تم اِس کُرسی پر نہ بیٹھے ہوتے؟۔ انگریزی دَور میں کسی صوبے کے گورنر یا "Governor General of India"کو "Lord" کہا جاتا تھا لیکن ، متحدہ پنجاب میں ’’ لاٹ صاحب‘‘ ۔ 1844ء سے 1848ء تک "Henry Harding" سابق فیلڈ مارشل تھے ۔ اُن کا ایک ہاتھ کسی جنگ میں ضائع ہوگیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل 1947ء کے آغاز میں مَیں نے لڑکپن میں ایک لوک گیت سُنا تھا جس میں ایک نوجوان اپنی محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا کہ … پرواہ نئیں ٹُنڈے ٹاٹ دِی،ہم تُم ٹُر چلّئے! یعنی ۔ ’’ فلمی ہیرو اپنی ہیروئن کو ورغلا رہا تھا کہ ہمیں ٹُنڈے (لولے) گورنر آف انڈیا سے کیا ڈرنا؟ ۔ آئو ہم دونوں بھاگ چلیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے سارے صوبوں میں جتنے بھی گورنرز مقرر کئے ہیں میرے لئے وہ سبھی قابلِ احترام ہیں لیکن، مَیں تو صِرف ایک گورنر ۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو ستمبر 1981ء سے قریب سے جانتا ہُوں ، جب مَیں برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے سرکاری دَورے پر ایک ہفتہ کے لئے گلاسگو بھی گیا تھا تو ، گلاسگو میں ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی نے میرا چودھری صاحب سے تعارف کرایا تھا ۔ اُن دِنوں چودھری محمد سرور میدان سیاست میں نہیں اُترے تھے ۔ مجھے معلوم ہُوا کہ چودھری محمد سرور ہر پاکستانی نژاد بے روزگار نوجوان کو کاروبار کیلئے 5 ہزار برطانوی "Pounds" اِس شرط پر ’’ قرضِ حسنہ‘‘ دے دیتے ہیں کہ ’’ جب تمہاراکاروبار چل جائے تو تم یہ 5 ہزار پائونڈ ، میری موجودگی میں کسی اور بے روزگار نوجوان کو ’’ قرضِ حسنہ‘‘ کے طور پر دے دینا۔ آج کے کالم میں مَیں چودھری محمد سرور کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں لکھوں گا ۔ اُن سے صِرف یہی کہوں گا کہ ’’آپ اپنے لیڈر وزیراعظم عمران خان سے دیواریں نہ گرانے کی گزارش کریں ۔ گورنر ہائوس لاہور کی دیواریں گرائی گئیں تو ، کیا انگریزوں کی ’’غلامی کی علامت ‘‘ ایچی سن کالج لاہور اور اِسی طرح کی دوسرے عمارتوں کی دیواروں کو گرانا بھی ضروری نہیں ہو جائے گا؟ ۔