سکھوں کے پانچویںگورو’’ ارجن دیو‘‘ کے 413ویں شہیدی دن (Martydom day)اور جوڑ میلہ کے سلسلہ کی مرکزی تقریب کل یعنی 16جون، اتوار، لاہور کے گوردوارہ ڈیرہ صاحب میں منعقد ہوئی, یہ وہی گورو ارجن دیو ہیں, جو گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھوانے کے لئے لاہور سے حضرت میاں میر قادریؒ کو بطور خاص امرتسر لے کر گئے۔ جی سی یونیورسٹی کے استاد سردار کلیان سنگھ کلیان کی یہ فکر مندی اور درد مندی اپنی جگہ بجا،کہ خطے میں ’’سکھ مسلم تعلقات‘‘ کے درخشاں نقوش ایک سازش کے تحت تاریخ اور بالخصوص ہندوستان کے موجودہ نصاب سے محو کئے جا رہے ہیں۔یہاں تک کہ وہاں کے سلیبس سے گوروارجن کی حضرت میاں میرؒ سے عقیدت اور آپ کے ہاتھوں ’’دربار صاحب‘‘ امرتسر کے سنگ بنیاد جیسے مسلمہ تاریخی حقائق کو بھی مسخ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، تاکہ خطے کا روادارانہ مذہبی ماحول کشیدہ اور ’’مسلم سکھ بھائی چارہ‘‘ رخنے کا شکار ہو۔ وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی صاحبزادہ پیر نور الحق قادری’’مرد کوہستانی‘‘ بھی ہیں اور مردِ خلیق بھی۔ بقول اقبال ؎ ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر ُمغاں ہے ’’مردِ خلیق‘‘ آپ نے اپنی وزارت کے زیر اہتمام چاروں صوبوں کے صوبائی صدر مقامات پر ’’گفت و شنید کا بین المذاہب ہم آہنگی میں کردار‘‘ کے عنوان سے ،انتہائی موثر اور شاندار کانفرنسز کا انعقاد کر کے‘ خطے میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو احساس محبت و شراکت سے آراستہ کیا ہے۔ گزشتہ ماہ لاہور میں منعقدہ اس وقیع کانفرنس کو، میں نے واقعۃً تمام مذاہب کے نمائندہ اجتماع کے طور پر معتبر پایا۔ اگرچہ اس میں بعض امور پر ہمارے علماء کے اعتراضات اپنی جگہ ۔۔۔مگر مجموعی طور پر یہ کاوش محض ’’رسمی کارروائی‘‘ نہیں بلکہ عملی اور حقیقی اقدامات سے مزین تھی، جس پر وزیر موصوف لائق صد مبارکباد ہیں۔ دو دن پہلے بھی وہ کراچی سے ایسی ہی ایک کانفرنس کے کامیاب اہتمام کے بعد لاہور تشریف فرما ہوئے اور فیصل آباد میں محترم میاں محمد حنیف صاحب کے ہاں منعقدہ ان کی ایک نجی تقریب میں شرکت کے لئے روانگی سے قبل ،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کی پرشکوہ عمارت کے تفصیلی دورے کے بعد، اس کے کمیٹی روم میں ،پنجاب قرآن بورڈ اور متحدہ علماء بورڈ کی مرکزی لیڈر شپ سے گفت و شنید کے دوران انہوں نے بلا تکلف اس امر کا اعادہ کیا کہ میری منصبی ذمہ داریاں اپنی جگہ۔۔۔ لیکن دینی اقدار اور اسلامی روایات کا استحکام ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے برملا کہا کہ موجودہ حکومت دینی طبقات سے مفاہمت پر مبنی خوشگوار تعلقات کی خواہاں ہے، جس کے لئے اس نوعیت کی گفت و شنید کو مذہبی اور سماجی سطح پر مزید موثر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ حسن اتفاق یہ ساری باتیں حضرت میاں میر قادریؒکے مزار اقدس کے پہلو۔۔میں آپ کے دربار سے ملحق اور وقف، 54کنال اراضی پر محیط‘ اس عظیم الشان کمپلیکس میں عطا ہوئیں۔ حضرت میاں میرؒ ،قادری سلسلے کی اولوالعزم اور جلیل القدر ہستی اور بالخصوص مغل عہد کے انتہائی معتبر صوفی بزرگ تھے۔ جہانگیر ‘ شاہجہان اور داراشکوہ ان سے ازحد عقیدت رکھتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گورو ارجن دیو صاحب‘ جو سکھوں کے پانچویں گورو تھے، بھی آپ کے ارادت مند تھے اور سری ہرمندر صاحب کے سنگ بنیاد کے موقع پر، جب اس خطے کے معتبر صوفی ‘ سادھو‘ سنت اور مختلف مذاہب کی روحانی شخصیات تشریف فرما ہوئیں ،تو اس کے سنگ بنیاد کے لئے گورو جی نے حضرت میاں میر ؒسے بطور خاص درخواست کی اور لاہور سے امرتسر آپ کی آمد کا اہتمام کیا۔ بلکہ یہ امر بھی تاریخی حقائق میں معتبر مقام کا حامل ہے کہ’’ ہرمندر صاحب‘‘ کی تعمیر کے لئے جگہ بھی مغل بادشاہ اکبر اعظم کی عطا کردہ تھی، اور اس کی عمارت پر بھی مسلم فن تعمیر کا غلبہ رہا۔ اگرچہ اس کے تعمیراتی اخراجات میں جہانگیر کا بھی بڑا حصہ بیان ہوا ہے، تاہم جہانگیر کے بیٹے شہزادہ خسرو کے ’’تخت ہند‘‘ کے وارث ہونے کے اعلان اور پھر گروارجن کی خدمت میں دعا کی غرض سے حاضری کے سبب جہانگیر، دونوں کا بدترین مخالف ہو گیا۔ جس میں بنیادی کردار ’’لاہور کے دیوان‘‘چندو لال کا تھا‘ جو اپنی بیٹی کی شادی کے حوالے سے پریشان تھا، اور اس کو کسی پروہت اور عامل نے اس کی شادی گوروارجن سے کرنے کی تلقین کی۔ چندو لال اپنے دور کا بہت بڑا ساھوکار ‘ سرمایہ دار اور دولتمند تھا۔ عامل بابا کی بات اس نے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے گوروارجن کی درویشی اور بے سروسامانی کا مذاق اڑایا۔ یہ بات جب گورو جی تک پہنچی تو انہوں نے بھی بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبل از وقت ہی معذوری کا اظہار کر دیا۔ چندو لال جو جہانگیر کا چہیتا تھا، نے بادشاہ کو برانگیختہ کر کے، ذاتی مخاصمت پوری کی۔ گورو جی گرفتار ہو کر آہنی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ ان کوگرنتھ صاحب سے مسلم صوفیا کے اقوال و اشعار نکالے جانے کا حکم ہوا، جس کو انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ چندو لال نے گورو جی کو اپنی حویلی کی ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں ڈال کر ،ان کا کھانا پینا بند کر دیا۔ روایت ہے کہ اس کٹھن اور مشکل وقت میں حضرت میاں میرؒ اس کی مدد کو لال کھوہ میں واقع اس کوٹھڑی تک پہنچتے‘ دعا دیتے، ڈھارس بندھاتے‘ یہاں تک کہ آپ کی دعا سے اس کوٹھڑی کے قریب واقع بیری۔۔ سارے موسموں اور سال بھر ثمر آور رہنے لگی، اور یوں اس بیری کے بیر جو کوٹھڑی کے صحن میں گرتے گورو ارجن کی شکم پروری کے کام آتے۔ کہا جاتا ہے انہی مظالم اور تشدد کے سبب گورو ارجن ہلاک ہوئے۔ قدرت کا اپنا نظام ہے چندو لال جہانگیر کے غیض و غضب کا نشانہ بنا اور جس طرح اس نے گرو جی کو پابند سلاسل کر کے گلیوں میں گھسیٹا تھا، اسے بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال حضرت میاں میرؒ اور گوروارجن کی دوستی خطے میں بین المذاہب ہم آہنگی اور روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے ہمیشہ مضبوط بنیاد کے طور پر معتبر رہی۔ گورو ارجن کے بعد اس کے بیٹے گورو ہرگوبند جی سکھوں کے چھٹے گورو کے منصب پر فائز ہوئے۔ وہ بھی لاہور میں حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ نے اس کی پذیرائی کی۔ بلکہ حضرت میاں میرؒ کے وصال کے موقع پر اس نے لاہور میں چالیس روز تک قیام کیا۔ ’’شہیدی یوم‘‘ پر ہمارے علماء کی رائے اپنی جگہ معتبر ۔تاہم ہماری سرکاری خط و کتابت میں بھی دونوں"Martydom day"کے نام درج ہے جس کا معنی صاحب لغات نے یہی کیا ہے۔ شہادت پر منتج ہونے والی سختیاں۔ بہرحال، گورو ارجن کے 413ویں شہیدی یوم میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے سکھ یاتری ان دنوں لاہور میں قیام پذیر ہیں اس دوران وہ جہاں حضرت میاں میر کے دربار پر حاضری سے بہرہ مند ہونگے وہیں، بیری کے اس درخت کے پتے بھی اپنے سینے سے لگائیں گے‘ جن سے حضرت میاں میرؒ کی وفا اور ایفا کی مہک آتی ہے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک بھی مسلم صوفیا سے متاثر بلکہ ان کی تو ولادت ہی حضرت ابوالخیر شاہ مراد نولکھ ہزاری، جن کا مزار شاہ کوٹ میں مرجع خلائق ہے، کی دعا سے ہوئی۔ سکھ مذہب کے دس گورو ہیں۔ جن میں آپ کو پہلے گورو جبکہ گرنتھ صاحب کو آخری گوروکا درجہ میسر ہے جس کیلئے سکھوں کا یہ نعرہ اور عقیدہ معروف ہے’’گورو سانیوں گرنتھ‘‘