وہ میرے گھنگھریالے بالوں اور گندمی رنگت سے مجھے بلوچ سمجھا تھا میں چہرے مہرے سے بلوچ ہی لگتا ہوں ،کراچی کے علاقہ لیاری پیپلزپارٹی کا گڑھ جانا جاتا ہے یہاں بلوچوں کی اکثریت ہے۔ صحافتی ذمہ داریاں جب کبھی یہاں لے جاتیں تو یہاں کے مقامی بھی مجھے بلوچ ہی سمجھتے اور بلوچی میں گپ شپ کرنے لگے جاتے تھے، اسی لئے جب اس نوجوان نے مجھے واجا کہہ کر بلوچی میں مخاطب کیا تو مجھے کچھ عجیب سا نہ لگا ،وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں بلوچوں کے کس قبیلے سے ہوں ،میں نے مسکراتے ہوئے نفی میں سرہلا دیا ’’میں بلوچ نہیں ہوں دوست ‘‘’’اچھا‘‘ اس نے لفظ اچھا کا آخری الف حیرت سے خوب کھینچ لیا اور معذرت کرنے لگا۔ میںاسلام آبا دکی پشت پر کھڑی مارگلہ کی سبز پہاڑیوں پر نقب لگانے کی تیاریاں کر رہا تھا ،ہفتہ وار تعطیل کے روز اس شہر کے رہنے والے بڑی تعداد میں مارگلہ کا رخ کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اور جاتی جوانی کو روکنے کی تگ و دو کرنے والے ادھیڑ عمر سب ہی مارگلہ کے بے ضرر جنگلات میں بنے راستوں پر دکھائی دیتے ہیں۔اس نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا کہ آپ دیکھنے میں بالکل بلوچ لگتے ہو میں مری بلوچ ہوں اور میں بھی آپکو بلوچ ہی سمجھا تھا،میں اس بات کا اسے کیا جواب دیتا بس اپنی بے ترتیب ہوتی سانسیں سنبھالتے ہوئے مسکرا کر رہ گیااور کن اکھیوں سے اسکا جائزہ لینے لگا ۔اسکی عمر تیس بتیس سال رہی ہوگی ، سیاہ چمکدار آنکھوں پر گھنی بھنویں نمایاں تھیں وہ اکیلا ہی تھا اور اسے بھی کوئی گپ شپ والا چاہئے تھا وہ کہنے لگا ’’مجھے پہاڑوں سے عشق ہے ،مجھے جب بلوچستان کے پہاڑ یاد آتے ہیں تو یہاں چلا آتا ہوں ‘‘میں نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان جواب دیا اگرچہ کہ یہ پہاڑ آواران خاران کے پہاڑوں کے مقابلے میں ٹیلے ہیں لیکن اسی پر اکتفا کرناہوگا،میری اس بات پراس نے چونک کر پوچھاآپ بلوچستان جا چکے ہو ،میںنے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا،زیارت،کچلاک ،کوئٹہ ،لسبیلہ اور آواران گیا ہوں وہاں راستے میں شیریں فرہاد کا مزار بھی ہے ،لوگ دعویٰ کرتے ہیں میں نے کتبہ لگا دیکھا تھا۔ ہم دونوں بلوچستان پر گفتگو کرتے ہوئے مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں پر چڑھتے چلے گئے اس نوجوان نے بتایا کہ اسکا قیمتی پتھروں کاکاروبارہے وہ دنیا بھرمیں گھومتا پھرتا رہتا ہے اورجب ماں باپ یاد آتے ہیں تو اسلام آباد آجاتا ہے۔اس نوجوان کی یہ بات کچھ عجیب سی تھی میںنے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور کہا گھر والے یاد آتے ہیں تو آپ اپنے گھر کیوں نہیں جاتے آپ نے تو بتایا کہ آپکے والدین تربت میں ہیں۔میرااستعجاب اسکے لبوں پر غمزدہ سی مسکان لے آیا،وہ کہنے لگا میں در بدر ہوں گھر نہیں جا سکتا ۔ تھوڑی دیر بعداس نے خود ہی ’’دربدری‘‘ کا سبب بتا دیا ،وہ ایک جگہ سانس لینے کے لئے رکا اور کہنے لگا’’ سرمچار میری جان کے دشمن ہیں مجھ پر دو بار حملے ہو چکے ہیں مجبورا میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں وہاں رہ رہا ہوں ،زیادہ تر سفر میں رہتا ہوں وطن آ تا ہوں تو ماں باپ کو بھی یہیں بلا لیتا ہوں ‘‘۔اس نوجوان کی کہانی بلوچستان کے ان بدنصیب نوجوانوںکی کہانیوں میں سے ہے جسے کم ہی لوگ پڑھتے ہیں کیوں کہ اس پر لکھا ہی بہت کم گیا ہے آپ اسے بک شیلف میں رکھی کہانیوں کی وہ کتاب سمجھیں جسے جگہ بھرنے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔اس نے سوال کیا ’’آپ کو سرمچاروں کا تو پتہ ہی ہوگا‘‘بلوچ عسکریت پسند باغی نوجوانوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر میں نے اتنا ہی کہا بس اتنا جانتا ہوں کہ انہوں نے بلوچستان کے کچھ علاقوں کو شورش زدہ بنارکھا ہے،اس نے ہنکارہ بھرا اور کہنے لگا ’’ میرا چچا زاد بھائی بھی سرمچار تھا وہ پتہ نہیں کیسے ان باغیوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ باہر کیا کرتا پھر رہا ہے پتہ تب چلا جب ایک دن چچا کے گھر فورسز والوں نے چھاپہ مارا،وہ چار مہینے کے بعد ہی گھر آیا تھاہمیں تو بس اتنا علم تھا کہ وہ کراچی کے کسی کالج میں پڑھ رہا ہے اور چھٹیوں پر گھر آجاتا ہے، فورسزوالے اسے لے کر گئے توتب ہمیں پتہ چلا کہ وہ کن چکروں میں تھا اور اچھا خاصا آگے چلا گیا تھااس نے افغانستان میںٹریننگ لے رکھی تھی،اسکی گرفتاری ہمارے گلے پڑ گئی ،سرمچاروں کو میرے بڑے بھائی پرمخبری کا شک ہوا پہلے اسے گاڑی سے اتار کر شہید کیا گیا پھر میرے پیچھے پڑ گئے ہمارے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا جس کے بعد میرے والد نے مجھے راتوں رات وہاں سے نکال دیا میں اس حال میںنکلا کہ جو کپڑے جسم پر تھے بس وہی تھے اور جیب میں صرف تین ہزار روپے تھے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں واپس نہیں جا سکا میرے والد نے مونچھ کا بال توڑ کر مجھے قسم دے رکھی ہے کہ میں لوٹ کر نہیں آؤں گا میں پابند ہوں نہیں جاسکتا ‘‘۔ اجنبی بلوچ نے مجھے حیران اور میرا دل بوجھل کردیا میں تسلیم کرتا ہوں کہ بلوچستان کا یہ کرب یہ دکھ میری آنکھوں سے اوجھل رہا ہے مجھے شرمندگی ہے کہ میں نے بلوچستان کی محرومیوں پر تو قلم اٹھایا ،لاپتہ ہوجانے والوں کے دکھ بھی لفظوں میں پروئے لیکن بلوچ عسکریت پسندوں کے ان مظالم پر کبھی نہ لکھ سکا۔ وہ نوجوان مجھے کہنے لگا بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں کے نوجوانوں کے سامنے کنواں اور پیچھے کھائی ہے ،وہ سرمچاروں کا ساتھ نہ دیں تو وہ مارتے ہیں اوران کے خلاف مخبری نہ کریں تو الگ پریشانی ،اس نے میری بات سے اتفاق کیا کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے ،علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنے کارکنوں کے پے رول پر رکھا ہوا ہے انہیں معاش کی فکر سے آزاد کر رکھا ہے بلوچستان کو نظر انداز کئے جانے کے رویئے اورغربت نے وہاںمحرومیاں کاشت کر رکھی ہیں اور ان ہی محرومیوں نے نوجوانوں میں غصہ بھر رکھا ہے ،میڈیا بلوچستان کے مسائل غربت ،پسماندگی پر دکھاتا ہے لکھنے والے لکھتے ہیں اور انہیں ضرور لکھنا چاہئے لیکن ان مسائل سے جڑے اس مسئلے پر کوئی قلم کیوں نہیں اٹھاتاکیا انسانی حقوق کے جملہ حقوق صرف فورسز کے خلاف شکایات نے لے رکھے ہیں ،ان شکایات سے ہٹ کر کوئی آہ،کوئی اشک ،کوئی کراہ کہیں رپورٹ نہ ہوگی کوئی نوٹس نہ لے گا ان گونگے مظالم پر کوئی نہیں چونکے گا ایسانہیںتو پھر ان مظالم پر اہل قلم کے قلم کیوں ساکن ہیں !