معزز قارئین! اُردو کی ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ گانا اور رونا کسے نہیں آتا‘‘ لیکن کیا کِیا جائے کہ ’’ 26 جون کو کراچی کی ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک پرانی بھارتی فلم کا گانا تو گایا لیکن حاضرین کو پتہ نہیں چل سکا کہ میاں صاحب اپنے کِس خاص دوست کے بچھڑ جانے کے خوف سے رونا چاہتے ہیں ؟ گانے کے بول تھے…

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تُم!

تمہارے بِنا ہم بھلا کیا کریں گے!

میاں شہباز شریف 25 جولائی کے عام انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست سے بھی امیدوار ہیں۔ وہ شاید کراچی میں گلوکاری کا مظاہرہ کرنے سے ایم ۔ کیو ۔ ایم کے بانی کے ہمدردوں کے دِلوں میں گھرکرنا چاہتے ہیں اور اُن کا بھی جو "Video Link" کے ذریعے اُن کے خطاب کے دَوران گانے سُن کر محظوظ ہوتے تھے لیکن  میاں شہباز شریف نے جب اپنے خطاب میں ’’ پان ‘‘ (Betel-Leaf) کو کراچی میں گندگی کا ذمہ دار قرار دِیا اور کراچی کو ’’کرانچی ‘‘کہا تو، اہل کراچی اور خاص طور پر ’’اہل زبان ‘‘ (Urdu Speaking) خواتین و حضرات کو ناراض تو ہونا ہی تھا ۔ 

ایم ۔ کیو ۔ ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر جناب فاروق ستار نے میاں شہباز شریف کے ’’ کراچی کو پان کھانے والوں کا شہر‘‘ بیان کرنے کو افسوسناک اور تضحیک آمیز قرار دیتے ہُوئے فوراً ہی شہباز شریف کو اہلِ کراچی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کِیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر تحریک انصاف کے سینئرنائب صدر سیّد علی زیدی کو ایک پان کی دکان پر کھڑے ہو کر سپیشل پان لگواتے اور کھاتے ہُوئے دِکھایا گیا اوریہ کہتے ہُوئے بھی کہ ’’ کراچی کے عوام شہباز شریف کو بھرپور جواب دیں گے ‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے 29 جون کے شمارے میں ’’ دامِ خیال‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنے کالم میں میاں شہباز شریف اور اُن کے گلوکار بڑے بھائی میاں نواز شریف پر بہت کچھ لکھا لیکن مجھے تشفی نہیں ہُوئی ، اِس لئے کہ مَیں بھی ’’اردو سپیکنگ پنجابی ‘‘ ہُوں اور مجھے اُردو زبان ، کراچی اور اہلِ کراچی سے بہت محبت ہے ۔ قائداعظمؒ کراچی میں پیدا ہُوئے اور وہیں مدفون ہیں اور اُنہوں نے اردو کو ’’پاکستان کی قومی زبان ‘‘ قرار دِیا ۔ 1947ء میں بھارتی پنجاب کے تین شہروں میں میرے خاندان کے 26 افراد کو دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں نے شہید کردِیا تھا۔ اور جب میرے والد صاحب، تحریکِ پاکستان کے (گولڈمیڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں  ہمارا خاندان ہجرت کے بعد سرگودھا آباد ہُوا تو ہم میں سے کوئی بھی مہاجر نہیں کہلایا۔

1987ء میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے جب، اُن کی دعوت پر الطاف حسین اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لاہور کے ایک "Four Star Hotel" میں ٹھہرے تھے ۔ مَیں اور میرے مرحوم صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔامرتسری ، اُن سے مِلے ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ الطاف حسین صاحب ہم دونوں دوستوں کے خاندان کے لوگ شہید ہُوئے لیکن ہمارے خاندان کے لوگ تومہاجر نہیں کہلاتے؟ ‘‘۔ اُنہوں نے کہا ’’ اثر چوہان صاحب!۔ متحدہ پنجاب میں  آپ کی زبان پنجابی اور "Culture" تو ایک تھا ؟ ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ ہمارا اور سِکھوں کا مذہب مختلف تھا ، اِسی لئے اُنہوں نے ہندوئوں کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب کے 10 لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کِیا تھا ‘‘۔ کالے چشمے میں اپنی آنکھیں چھپائے ہُوئے الطاف حسین آئیں بائیں شائیں کرنے لگے ۔ کراچی اور پاکستان کے مختلف صوبوں میں آباد ہونے والے مشرقی پنجاب کے مہاجر ۔ مہاجرؔ نہیں کہلاتے اور نہ ہی مہاجروں کی اولاد؟۔ 

 8 اپریل 2015ء کوکراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جناب عمران خان نے کہا تھا کہ ’’ میری والدہ شوکت خانم صا حبہ بھی 1947ء میں بھارتی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں اِس لئے مَیں بھی آدھا مہاجر ہُوں ، اِس پر مَیں نے اپنے 10 اپریل کے کالم میں ۔ عمران خان سے مخاطب اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا یہ شعرلکھا تھا کہ …

بدل نہ طَور نیا رُوپ اختیار نہ کر ! 

 مہاجرت ؔکا سیاست میں کاروبار نہ کر !

معزز قارئین! ۔ اُن دِنوں کراچی کے حالات بہت خراب تھے ۔ کراچی میں میرے کئی دوست اور رشتہ دار ہیں ۔ مَیں نہ صِرف اُن کے بلکہ تمام اہلِ کراچی کے دُکھ درد میں شریک تھا ۔ میرے پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ لاہور کے ستمبر2011ء کے شمارے میں مَیں نے اپنی ایک پنجابی نظم شائع کی تھی جس کا عنوان اور چار بند ہدیہ ٔ  قارئین ہیں …

پردیسی ، لوڑ وَنداں تے ، شفقت دا سائبان!

ہر قومیت دے ، لوکاں تے ، ہر ویلے ، مہربان!

جِس دے ، وجود نال ، مرے مُلک دِی، پَچھان!

دِل  میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!

…O…

لگ گئی ، کِسے دِی ، بَھیڑی نظر ، سوہنے شہر ، نُوں!

ٹالے گا کون ؟ کِس طراں ؟ قُدرت دے قہر نُوں!

بچّے، بُزرگ ، عورتاں ، مُرجھا گئے جوان!

دِل  میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!

…O…

کُجھ لوک، بَھتّہ خور ، نیں ، کُجھ ڈاکو ، چور ، نیں!

کُجھ ، شکل مومناں ؔ، وِی نیں ، وِچّوں کجھ ، ہور ، نیں!

ویلھے  جے ہون ، بچّیاں نُوں ، روٹی کِیویں کھوان!

دِل  میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!

…O…

جَد ، چاہوے ، ایم کیو ایم ، وِی تے ، کردِی اے احتجاج!

Give and Take مگروں ، بدل جاندا اے ، مزاج!

فیر، ٹیلی فون کردے نیں ، الطافؔ بھائی جان!

دِل  میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!

معززقارئین! ۔ ستمبر 2013ء میں ، مَیں نیو یارک میں اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کامہمان تھا۔ 30ستمبر کو واشنگٹن میں ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک سابق ڈائریکٹر ، ادیب اور شاعر سیّد ابو الحسن نغمی اور اُن کی اہلیۂ محترمہ یاسمین نغمی کی علمی و ادبی تنظیم"Society of Urdu Literature" (S.O.U.L) کی تقریب میں مَیں صدر مجلس تھا اور لاہور ہی کے میرے ایک پرانے دوست صحافی "Common Grounds Think Tank" کے سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار اے کاظمی مہمان خصوصی تھے۔ تقریب میں کئی اردو کے شاعروں نے اپنا کلام سُنایا لیکن، مَیں نے (مسلمان ، ہندو اور سِکھ حاضرین کی اجازت سے ) اپنی مندرجہ بالا نظم

 ’’ دِل  میرا  میری جان  کراچی  لہولہان‘‘ 

…O…

 سُنائی تو کئی ’’اہلِ کراچی ‘‘ آبدیدہ ہوگئے اور بہت سے "NonKarachiites" بھی ۔ معزز قارئین! ۔نہ صِرف کراچی بلکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی پان ؔ سے شوق کا صدیوں سے رواج ہے ۔ قدیم ہندوستان میں ایک خاص طریقے سے لپٹے ہُوئے پان ؔکو گلوری کہا جاتا تھا ۔(اب بھی ) ۔ پان ؔاور گلورِی پر اُستاد شاعروں نے بہت کچھ کہا ۔ جناب وزیر ؔ لکھنوی کہتے ہیں کہ …

کیا لگائی ہے گلورِی گورے گورے ہاتھ سے !

ہوگیا چُونے کی صُورت پان میں کتّھا سفید!

…O…

اُستاد رِند ؔنے نہ جانے کِسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

آنکھیں نیچی کئے شرمائے ہُوئے مُنہ پھیرے!

مسکرا کر  وہ گلورِی کو چبانا تیرا!

…O…

گلورِی کو ۔ ’’بِیڑا ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ قدیم ہندوستان میں ہندو راجائوں کے دربار میں رواج تھا کہ ’’ جب ریاست کو کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا توایک بڑی سی میز پر بہت سی گلورِیاں ( بِیڑے ) سجے ہوتے تھے اور اہل دربار میں سے جو ، کوئی وہ گلوری / بِیڑا اُٹھا لیتا تھا تو، یہ اعلان ہو جاتا کہ ’’ بِیڑا اُٹھانے والے شخص نے اُس مشکل مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ افسوس کہ آج کے دَور میں توبعض سیاستدان ، سیاستدان اور اینکرز پرسنز ۔ بِیڑا اُؔٹھانا ۔ کے بجائے بَیڑا اُٹھانا کہتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’عام انتخابات کے بعد منتخب وزیراعظم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں غربت کی لکِیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد عوام کی مشکلات حل کرنے کا بِیڑا اُٹھائے گا ؟ یا بَیڑاؔ۔ کہیں اِدھر اُدھر لے جائے گا ؟۔