عقوبت خانہ ختم کیا جا رہا ہے، لیکن ظلم، دہشت اور درندگی کی کہانیاں زندہ رہیں گی۔ ’’گوانتا ناموبے‘‘۔۔ جدید انسانی تہذیب کا رستا ہواایک ایسا ناسور ہے، جس کی تاریخ یہ بتاتی رہے گی کہ ظلم اور وحشت صرف چنگیز خان اور سکندرِ اعظم جیسے ظالم بادشاہوں کا ہی خاصہ نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہ موجودہ دور کے آمروں، ڈکٹیٹروں اور فوجی حکمرانوں کی جاگیر ہے، بلکہ بد ترین تشدد، بے رحم درندگی اور ظالم انتقام کیلئے جمہوریت اور انسانی حقوق کی چیمپئن ریاست ’’امریکہ‘‘ بھی کم نہیں، جس کے زیر سایہ یہ ظلم زیادہ ’’حسن و خوبی‘‘ سے سر انجام دیا گیا تھا۔ بادشاہوں کے ظلم پر اس زمانے کے انسانوں کی خاموشی ایک بزدل تاریخی روّیہ ہے، جو یونان کے شہر تھیبز (Thebes) میں بھی نظر آتا ہے جس کی پوری آبادی کو سکندرِ اعظم نے اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ انہوں نے اس کے خلاف دیواروں پر نعرے تحریر کیے تھے۔ یہی روّیہ کوفہ کے شہریوں میں بھی ملتا ہے کہ جو ایک دن پہلے تک سیدنا امام حسین ؓ کے استقبال کے لیئے بیتاب تھے اور ابنِ زیاد کے شہر میں داخلے کے بعد ظلم کے سامنے سربسجود ہو گئے تھے۔ مگر گوانتا ناموبے کے ظلم پرتو دنیا بھر کے چھ ارب انسانوں کی طویل خاموشی ہے، اور گذشتہ بیس سالوںسے نیوزی لینڈ کے شہر ولنگٹن سے لے کر امریکہ کے جزیرے ھوائی تک سب اس میں شریک ہیں۔ ان میں سو کے قریب وہ جمہوری حکومتیں بھی شامل ہیں جن میں سے 48ممالک تو ایسے تھے جن کی افواج نہتے افغانستان پر حملہ آور ہوئیںتھیں اور وہاں سے انسانوں کو پکڑ پکڑ کر اس عقوبت گاہ بھیجتی رہی تھیں۔ پاکستان کا پرویز مشرف بھی تھا جس نے گوانتا ناموبے کی مظلوم آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ کیا۔ اس کے قیدیوں میں تو وہ بھی تھے جنہیں بھروسے میں پکڑا گیااور پھر حوالے کیا گیااور کچھ ایسے تھے جو اس امید پر آرام سے تھے کہ انہوں نے تو کوئی جرم ہی نہیں کیاہے۔مگر ڈالر کمانے کی ہوس اور امریکہ کی نظروں میں معتبر ہونے کی طلب میں مشرف نے ان پر دہشت گردی کا ٹائٹل لگا کر گیارہ ستمبر کے بعد پیدا ہونے والی ’’عالمی غنڈہ فورس‘‘ کے حوالے کر دیا اور ان کا ٹھکانہ یہی گوانتا ناموبے کا عقوبت خانہ بن گیا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکہ صدر جارج بش کی زبان سے جس ہدف کا نام نکلا وہ ملا محمد عمرؒ کی اماراتِ اسلامی افغانستان تھی اور پھر ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد’’عالمی غنڈہ فورس‘‘ اس نہتے اور بے سروسامان افغانستان پر 7اکتوبر 2001ء کو حملہ آور ہوگئی۔ اس حملے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ چند ہزار طالبان کی دہشت سے چھ ارب انسانوں کو خطرہ ہے۔ اس لیئے دہشت گردی کی ’’نرسری‘‘ افغانستان پر حملہ کرنا ضروری تھا۔ اس جنگ کے دوران پکڑے جانے والے ’’انسانوں‘‘ کو عالمی جنگی قوانین،جینوا کنونشن، یہاں تک کہ امریکہ کی عدلیہ کی دسترس سے خاص طور پر دور رکھ کر ظلم اور تشدد کرنے کے لیئے، کیوبا کے ساحلوں پر ’’گوانتا ناموبے‘‘ کے نام سے امریکی نیوی کا ایک اڈہ تھا ،جس پر نہ امریکی قوانین لاگو ہوتے تھے اور نہ ہی کیوبا کا اس پر کوئی اختیار تھا، وہاں 11جنوری 2002ء کو ایک قیدیوں کا کیمپ بنایا گیا جو بظاہر لوہے کی تاروں سے بنے ہوئے ایک بہت بڑے جنگلے کی صورت تھا۔ اس کیمپ کا پہلا قیدی علی احمد محمد الزھیر تھا ، جس کا تعلق یمن سے تھا۔ اس دن اس کے ساتھ بیس قیدیوں کا ایک قافلہ اس عقوبت خانے میں داخل ہوا۔گذشتہ بیس سالوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے 779افراد یہاں لائے گئے۔ جن میں سے نو ایسے تھے جو تشددبرداشت نہ کرسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، جبکہ 731وہ تھے جن کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکا اورانہیں وہاں سے نکال کر مختلف حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ کے خوف کے زیر اثر ان تمام حکومتوں نے ان بیچاروں کا ایسا حشر کیا کہ ان کی بقیہ زندگی نہ مردوں جیسی رہی اور نہ زندوں جیسی۔ ایسے قیدیوں میں گذشتہ ماہ ایک قیدی لطفی بن علی کا انتقال ہو گیا جو تیونس سے تعلق رکھتا تھا، لیکن اسے کازکستان سے گرفتار کر کے گوانتا ناموبے لایا گیا۔کیمپ میں داخل ہوتے ہوئے ڈاکٹرز کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے دل میں ایک مکینکل والو ڈلا ہوا تھا ، اس کے گردوں میں پتھریاں تھیں، وہ فشار خون کا مریض تھا اور اسے ٹی بی بھی ہو چکی تھی۔ اسے صحت برقرار رکھنے کے لیئے مہینے میں دو دفعہ خون پتلا کرنے والی ’’Anti Coagulant‘‘دوا دی جانا ضروری تھی۔ اتنی بیماریوں کے باوجود وہ شخص بغیر کسی فرد جرم عائد ہوئے بارہ سال گوانتا ناموبے کے عقوبت خانے میں بدترین تشدد برداشت کرتا رہا۔ 2014ء میں اسے رہا کرکے واپس کازکستان ہی بھیج دیا گیا۔ جس وقت وہ کازکستان کے ایئرپورٹ پر اترا تو اس کے پاؤں میں گوانتا ناموبے کے قیدیوں والے سلیپرز (Flip flops) تھے اور باہر منفی 30ڈگری سنٹی گریڈ کی سردی تھی۔ یہاں اسے ایک ایسے گھر میں رکھا گیا کہ جہاں پرندوں کی چہچاہٹ تک سنائی نہ دیتی تھی۔ روز کسی بھی وقت پولیس دندناتی ہوئی آتی، اس کمزور اور بیمار شخص کا سامان الٹتی ، اور چلی جاتی۔ اس نے ڈائری میں لکھا کہ اس سے تو بہتر گوانتا ناموبے تھا کہ میں کم از کم تشدد کرنے والے سپاہی سے بات تو کر لیتا تھا۔ اس نے اپنے وطن تیونس جانے کی خواہش ظاہر کی تاکہ کم از کم اس کے اہل خانہ ہی اس کی تنہائی دور کرنے آجائیں اور اس کا بہتر علاج کروا سکیں۔لیکن اسے موریطانیہ بھیج دیا گیا، تا کہ یہ شخص موت تک اپنے پیاروں کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکے اور وہیں گذشتہ ماہ 9مارچ 2021ء کو اس مسلسل اذیت اور تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ یہ کہانی اس لیئے بیان کی ہے کہ وہ جو 731قیدی گوانتا ناموبے سے رہا کئے گئے، ان سب کی رہائی بھی ایسی ہی تھی، بالکل ایسے، جیسے کسی قیدی کوجیل سے پیرول پر رہا کر کے خرکار کیمپ میں بھیج دیا جائے۔ دنیا بھر میں اپنے چہرے سے کالک اتارنے کی یہ امریکہ کی بھونڈی کوشش تھی کہ وہ ان تمام قیدیوں کو چھوڑنا چاہتا تھامگر وہ ان قیدیوں کی باقی ماندہ تمام زندگی میںمستقل اذیت دیکھنے کا خواہاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو قیدی بھی وہاں سے رہا ہوا، اسے جس ملک کے بھی حوالے کیا گیاامریکی حکومت نے یہ اطمینان کر لیا کہ اس ملک کی حکومت اس ملزم کو سکون سے نہیں رکھے گی۔ ان 799قیدیوں میں سے 60سے زیادہ پاکستانی تھے۔ اس وقت گوانتا ناموبے کے عقوبت خانے میں صرف چالیس قیدی موجود ہیں جن میں 28کو منتقل کرنے کا بندوبست ہو چکا ہے لیکن شرط وہی ہے جو لطفی بن علی کے لیئے تھی کہ جس ملک بھی بھیجے جائیں گے، وہاں کی حکومت یہ ضمانت دے گی کہ یہ لوگ اذیت ناک زندگی گذاریںگے۔ ان بقیہ چالیس میں سے 12 افراد ایسے ہیں جن کا فیصلہ امریکی فوجی کمیشن نے کرناہے۔ ان میں سے ایک انتہائی شریف النفس پاکستانی سیف اللہ پراچہ اور ان کا بیٹا شامل ہیں۔ وہ ملا محمد عمرؒ کے زمانے میں افغانستان میں سکول بنانے کے لیئے سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ انہیںکراچی ائرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے امریکی بزنس پارٹنر سے بینکاک میں میٹنگ کرنے کے لیئے جا رہے تھے۔ ایک سال بعد ان کے بیٹے عزیر کو بھی نیویارک سے گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں ہی پندرہ سال سے گوانتا ناموبے میں قید ہیں اور آج امریکی اسٹبلشمنٹ کے تیور دیکھتے ہوئے نظر آرہا ہے کہ وہ دونوں عافیہ صدیقی کی طرح عمر بھر کے لیئے جیل میں ہی رہیں گے۔(جاری)