اے محمدؐ آپ کا مستقبل ماضی اور حال سے بہت ہی اعلیٰ ہو گا۔تین وجوہات کی بنا پر،جن میں سے سب سے اہم ۔آپؐ یتیم تھے،اللہ نے آپؐکو بہترین ٹھکانہ دیا۔ یوم یتامیٰ پر ہی ،لاکھوں یتیموں ،بے کسوں ،بے سہارا بچوں کی ماں بلقیس ایدھی کا انتقال بھی بڑا خلا پیدا کر گیا۔ اللہ نے کسی کوتنہا نہیں چھوڑا۔ہر ایک کے لیے ایسے اسباب مہیا کیے کہ وہ آسانی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں۔ان کی مکمل کفالت،حقوق کی پاس داری ہے۔اس سے منہ موڑنا حقوق کی پامالی۔ قرآن مجید میں23 مختلف مواقع پر ،یتیموں کے ساتھ حسن سلوک،اموال کی حفاظت اور نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی۔ ان پر ظلم و زیادتی، حقوق و مال غصب کرنے کی وعیدہے۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتے دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں۔(صحیح مسلم) یتیم ہونا انسانی نقص نہیں،منشائے خداوندی ہے۔وہ جو چاہتا ،کرتا ہے۔ اْس نے اپنے محبوبؐکو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا۔چھ سال کی عمر میں والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔رسولِ اکرمؐ کا ارشادِ گرامی ہے: مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے، جس میں کوئی یتیم زیرِ کفالت ہو،جس کے ساتھ اچّھا سلوک کیا جاتا ہو، اور مسلمانوں کا بدترین گھرانہ وہ ہے، جس میں کوئی یتیم زیرِ کفالت ہو، مگر اْس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔ او آئی سی نے دسمبر2013ء میں تمام اسلامی ممالک میں 15 رمضان کو یتیم بچوں کا دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔دنیا میں اس وقت ہر 30 سیکنڈز میں دو بچے یتیم ہورہے ہیں۔یونیسف کی رپورٹ کے مطابق دْنیا میں اِس وقت 15 کروڑ30 لاکھ بچے یتیم ۔اِن بچوں میں 6کروڑ یتیم بچے صرف ایشیا میں موجود ۔ اِن بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے۔ اگریہ انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں، تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے۔ پاکستان میں42 لاکھ بچے یتیم ہیں۔ان میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے،جنہیں تعلیم وتربیت،صحت اور خوراک کی مناسب سہولیات میسر نہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک عالمی فلاحی تنظیم ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کے منصوبے دیکھنے کا موقع ملا جس کے بعد راحت اورسکون ملا ۔ اس افراتفری کے دور میں بھی لوگ دوسروں کی مدد کے لیے کوشاں ہیں۔یتیم بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھا جا رہا۔ہیلپنگ ہینڈ طویل عرصے سے مختلف پروگرامز کے ساتھ کام کر رہی۔ ان میں یتیم بچوں کی کفالت سر فہرست۔55 اضلاع میں10ہزار یتیم بچوں کی کفالت جاری۔ یتیم بچوں کی تعلیمی معاونت ، سالانہ طبی معائنہ، فوڈ اینڈ رنیوٹریشن اور ذہنی و جسمانی بہتری کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں شامل ہیں۔ کرونا وائرس سے حفاظت کے ابتدائی مرحلے کے بعد ڈونرز کے تعاون سے بڑے پیمانے پر راشن اور کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی گئیں۔ اس مرحلے پر آٹھ ہزار تین سو پچاس یتیم بچوں میں تیرہ کروڑ روپے تقسیم کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ 1155 معذور بچوں کی مالی معاونت کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے کی رقم بھی فراہم کی گئی۔ یتیم ‘بے سہارا ‘ بے گھر اور معذورافراد کی زندگیوں کو آسان بنانا،ان کی زندگی میں خوبصورت رنگ بھرنا یقینا کوئی سہل کام نہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں ‘ فلاحی ادارے اور سماجی تنظیمیں اس صورت حال کو بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ امید کی شمع روشن کرنے میں سماجی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیںجویقینا قابلِ ستائش ہے اورانسانی زندگی کو آسان بنانے میں مددگار بھی۔انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کا جذبہ لائق تحسین۔والدین کا سایہ یقینا ہر بچے کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ کوئی بھی بچہ زندگی کے نشیب و فراز میں والدین کے سہارے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا،اٹھارہ سال کی عمر تک ہر بچے کو تعلیم،صحت اور خوراک سمیت تمام سماجی اور ذہنی ضروریات پوری کرنے کے لئے والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں روزانہ 10ہزار سے زائد بچوں سے ان کے والدین کا سایہ چھین لیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 17کروڑ کے قریب یتیم بچے ہیں، جن میں سے اڑھائی کروڑ بچوں کے والدین(دونوں) اس دنیا میں نہیں ہیں۔ دو دہائیوں کے دوران جہاں عالمی منظر نامہ تیزی سے بدلا، وہیں مختلف ممالک میں جنگوں، قدرتی آفات اور حادثات نے یتیم بچوں کی صورت میں ایک المیے کو جنم دیا۔ یتیم بچے سر پر چھت، تعلیم،خوراک سمیت بنیادی ضرورت کی اشیاء سے محروم ہوگئے، یقینا یہ اقوام عالم کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کے فلاحی اداروں نے 20مئی 2016ء کو آرفن کئیر فورم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا۔یتیم بچوں کے لئے کام کرنے والے ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے اس فورم کے ممبر ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈ، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف پاکستان، ہیومن اپیل، قطر چیرٹی، ریڈ فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، تعمیر ملت فاؤنڈیشن، ایدھی ہومز، انجمن فیض الاسلام، صراط الجنت ٹرسٹ، خبیب فاؤنڈیشن، سویٹ ہومز اور فاؤنڈیشن آف دی فیتھ فل شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے 50لاکھ کے قریب یتیم بچے، اپنوں کی عدم توجہی اور معاشرے کی بے اعتنائی کے باعث ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ان معصوم پھولوں کے بھکاری مافیا، آرگن مافیا اور انسانی سمگلرز کے ہاتھ چڑھنے کا خدشہ ہے۔بلکہ جرائم پیشہ افراد بھی ایسے بچوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اتنی بھیانک صورت حال نہیں ہے، یتیم بچوں کے رشتہ دار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی پرورش کرتے ہیں۔غیر سرکاری ادارے ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں۔ کئی مخیر حضرات انفرادی طور پر بھی کفالت یتامیٰ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ اب بھی لاکھوں بچے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، آج بھی مسکراتی کلیاں اپنے بچپن کی مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں، وہ پھول بن کر کھلنا چاہتی ہیں، وہ پھل بن کر معاشرے میں مٹھاس بانٹنا چاہتی ہیں۔ انہیں ضرورت ہے تو میرے اور آپ جیسے مالیوں کی، جو اپنے مال میں سے ان کلیوں کی آبیاری کریں۔ آئیے! آج یوم یتامیٰ کے موقع پر آرفن کئیر فورم کا پیغام ہر محب وطن، صاحب حیثیت پاکستانی تک پہنچائیں۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں جہاں کوئی یتیم بچہ ورکشاپ میں نہ ہو، بلکہ اس کی منزل سکول ہو۔