وزیراعظم عمران خان کے خطاب کا شدت سے انتظار تھا ، تعمیرات کے پیکج بارے پہلے بتا دیا گیا تھا ، انتظار اس لئے تھا کہ امید کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم تمام مزدوروں اور تمام دیہاڑی داروں کو کام کی اجازت ،اور ملک کے غریبوں کی لوٹی گئی دولت لٹیروں سے چھین پر غریبوں کو دینے کا اعلان کریں گے۔ مایوسی اس بناء پر ہوئی کہ وزیراعظم نے اعلان فرمایا کہ ’’ تعمیرات پر سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔‘‘ اگر ایسا ہے تو پھر نواز شریف اور زرداری سے جھگڑا کس بات کا ؟ ریاست مدینہ کا نظام لاؤں گا، کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا، جیسی تقریریں کرنے کا کیا فائدہ؟ وزیراعظم صاحب ! کیا یہ تبدیلی ہے ؟ یہ کوئی تبدیلی نہیں ، یہی کچھ تو سابقہ حکمران بھی کرتے رہے ہیں ، ان کی تقریریں اٹھا کر دیکھئے وہ بھی یہی کہتے رہے کہ ’’کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ دولت کہاں سے آئی‘‘۔سرائیکی میں کہتے ہیں ’’ ناراض نہ تھیویں تاں عرض کراں ‘‘ کہ یہ پیکیج غریب کا نہیں اور اس میں ریلیف کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ پاکستان میں اس وقت تک 2700 مریض ہیں ، 145 صحت یاب ہو چکے ، جبکہ 45 اموات ہوئی ہیں ،مرکز کے علاوہ صوبے اپنے اپنے طور پر کورونا وائرس سے نبرد آزما ہو رہے ہیں ، اس وقت تک پنجاب میں کم و بیش 11 سو مریض ہیں ، سندھ میں 900، خیبرپختونخواہ میں 400 ، بلوچستان میں 200 ، گلگت بلتستان آزاد کشمیر میں 250 ، اسلام آباد میں 90 مریض ہیں ۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کی تعریف ہو رہی ہے کہ انہوں نے کورونا کو اچھی طریقے سے ہینڈل کیا ، اور پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے مریض کم ہیں حالانکہ یہ بات غلط ہے کہ آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو پنجاب کی مجموعی آبادی تینوں صوبوں بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر سے زیادہ ہے آبادی کو سامنے رکھا جائے تو کورونا کے حوالے سے پنجاب کی پوزیشن بہتر ہے، سندھ میں سختی زیادہ ہے ، سندھ حکومت نے گڈز ٹرانسپورٹ کے حوالے سے وزیراعظم کا حکم ہوا میں اڑا دیا ، اس پر وزیراعظم نے یہ کہہ کر اچھا کیا کہ صوبوں کے اختیارمیں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ وزیراعظم نے امریکا اور پاکستان کے ریلیف پیکیج کا موازنہ کرتے ہوئے درست کہا کہ جس کے پاس جتنے وسائل ہونگے وہ اسی حساب سے پیکج دے گا ۔ پاکستان کے وسائل محدود ہیں ، اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غریب طبقے کا مسئلہ پیکیج سے نہیں معاشی سرگرمیوں سے حل ہوگا، یہ بات قابل تعریف ہے کہ وزیراعظم کرفیو اور سخت لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تاہم موجودہ پابندیوں سے غریب طبقہ عاجز آ چکا ہے ،لاک ڈاؤن جزوی طور پر لگایا جائے ، وزیراعظم کا یہ کہنا کہ تعمیراتی پیکیج سے دیہاڑی دار مزدوروں کو فائدہ ہوگا، درست نہیں کہ تعمیرات کیلئے اینٹ ، سریا ، ریت ،سیمنٹ وغیرہ کا ہونا ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن مین یہ اشیاء کہاں سے حاصل ہونگی؟ دیہاڑی دار کی بھی تعریف ہونی چاہئے صرف تغاری اٹھانے والا دیہاڑی دار نہیں یہاں چھوٹے دوکاندار، چھابڑی فروش، ریڑھی بان بھی دیہاڑی دار ہیں ، خصوصاً قابل احترام ہنر مند جن کو لٹیرے اور ڈاکو جاگیرداروں نے کمی کا نام دیدیا ہے، جیسا کہ لوہار، کمہار ، موچی ، پولی ، حجام ، دھوبی ،رنگ ساز، جلد ساز، کاشی گر، قالین باف، کار موٹر سائیکل مکینک، چار پائی ، موڑھا ساز، ریڈیو ٹی وی مکینک گھڑی ساز ، سونار، درزی ، مالشی ، قلعی گر، نلکا ساز، چتر کار، حقہ ساز، چوڑی گر، چٹائی ساز، ٹھپہ اکیر اور کڑھائی کا کام کرنے والوں کے ساتھ سنگر ، میوزیشن ، ڈھولی اور لوک تماشہ کرنے والے سب دیہاڑی دار ہیں ، ان سب کے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ جزوی طور پر معاشی سرگرمیاں بحال کی جائیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کھولی جائے۔ سعودی حکومت نے اس سال حج پر پابندی عائد کر دی ہے، حج کے خواہشمند اللہ کے نیک بندوں کو اچھا موقع ملا ہے کہ وہ حج کی رقم لاک ڈاؤن کا شکار غریبوں میں تقسیم کر کر دیں ، ان کو حج سے بھی زیادہ ثواب ملے گا اور روحانی سکون بھی حاصل ہوگا،میں اپنی بات کروں گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ جو دیتا ہے میں کتابوں کی اشاعت پر خرچ کر دیتا ہوں ، الحمد للہ گزشتہ تیس سال سے یہی کچھ کر رہا ہوں ،سرائیکی میں سینکڑوں کتابیں چھاپ دیں ، کروڑوں کا خرچ آیا، کورونا وائرس پر میرا دل بھی کرتا ہے کہ غریبوں کے گھر میں راشن پہنچاؤں مگر سرمایہ نہیں ، پھر مجھے خیال آیا کہ دولت نہیں تو کتابیں تو ہیں ، کیوں نہ غریبوں میں تقسیم کروں ، میں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ۔ کتاب دوست آنا شروع ہو گئے، جب کتابیں دے رہا ہوتا ہوں قسم بخدا! روحانی سکون مل رہا ہوتاہے، یہ بات پبلشنگ سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ اُن حضرات کیلئے بھی قابل تقلید ہے جن کے پاس کتابوں کی دولت ہے، شاکر شجاع آبادی نے خوب کہا … میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم توں گھٹ کائنی قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی کورونا سے خطرناک خوف اور غربت کی بیماری ہے، کورونا کے ساتھ دیگر جان لیوا بیماریوں کینسر، یرقان ،تھیلسیمیا، شوگر ، ہارٹ اٹیک کے تدارک بارے نہ صرف اقدامات ہونے چاہئیں بلکہ کورونا کی طرح بتایا جائے کہ ہر روز کتنے لوگ اس مرض کا شکار ہو رہے ہیںاور کتنے لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں ، ان معروضات کا احتیاطی تدابیر سے انکار نہیں مگر جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ زیادہ دیر تک لوگوں کو گھروں میں بند نہیں کر سکتے تو ضروری ہے کہ جزوی طور پر معاشی سرگرمیاں بحال کی جائیں بصورت دیگر خدشہ ہے کہ بھوکے گھروں سے نکلیں گے ،لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہوگا ،بھوک انسان کو پاگل بنا دیتی ہے جب انسان پاگل ہو جائے تو پھر وہ موت سے ڈرتا ہے اور نہ کورونا سے ۔ سرائیکی وسیب میں گندم کی کٹائی کا سیزن شروع ہے، سیزن سے ہفتہ پندرہ دن پہلے کاشتکاروں نے ٹریکٹر تھریشر وغیرہ کی مرکت کرانا ہوتی ہے مگر ورکشاپ بند ہیں ، کاشتکار کہاں جائے ۔ ایک ہفتے قبل شروع ہونے والے موسلادھار بارش کے سلسلے کے بعد سیلاب نے تباہی مچا دی ہے ۔ سرائیکی وسیب دریاؤں کی سرزمین ہے ، تمام دریا سرائیکی وسیب میں آ کر اکٹھے ہوتے ہیں ، دریائے چناپ کے سیلاب سے ملتان اور مظفر گڑھ کی سینکڑوں بستیاں زیر آب آ چکی ہیں ، محکمہ انہار کے تمام افسر اور اہلکار گھروں میں کورونا سے چھپے بیٹھے ہیں ، اللہ پاک خیر کرے کورونا اتنا نقصان نہیں دے گا جتنا کہ کورونا کے نام پر گھروں میں خوفناک قید ، جیل کے قیدیوں سے بڑھ کر قوم کو گھروں میں سے قید سے رہا کرنے کی ضرورت ہے۔