کئی روز سے ایک تصویر نے نیندیں اڑا رکھی ہیں۔یہ مولانا فضل الرحمن کے جلسے میں شریک ، اسی مملکت خدادا د کے کسی دورافتادہ اور پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی درماندہ ، دریدہ تن اور بے سروسامان کارکن کی کٹی پھٹی ایڑیوں والے گرد آلود پیر کی تصویر ہے جس نے ایک ایسی ٹوٹی ہوئی چپل میں پناہ لے رکھی ہے جسے پہننے والے نے اس جتن کے ساتھ کتنے ہی ٹانکے لگا کر جوڑ رکھا ہے کہ وہ اس بے سمت سفر میںا س کاساتھ نہ چھوڑ دے جس کا اسے بھی علم نہیں کہ وہ اس میں کیوں شریک ہے اور اس کا حاصل کچھ ہوا بھی تو اسے کیا حاصل ہوگا۔دوسری طرف قائدین کے خوشحالی سے دمکتے روغنی چہرے ہیں،بے شکن لباس ہیں،تہہ در تہہ دستاریں ہیں اور خدا ہی جانے اس طرہ پر پیچ وخم کا خم نکلے بھی تو درازی قامت کا بھرم کھلتے کھلتے کسے شرمندہ کرے گا۔ انہیں جن کے علاج پہ اب تک قومی خزانے سے پندرہ لاکھ خرچ ہوچکے جو اگر کارگر نہ ہوئے توبیرون ملک علاج کے دروازے ان خوش قسمتوں پہ ہمیشہ کھلے ہیں، یا انہیں جنہیں یہ تک علم نہیں کہ جتن سے جوڑی ہوئی چپل پہلے جواب دے گی یا کٹی پھٹی ایڑیاں اور گرد آلود ٹخنے۔شرمندگی اور درماندگی ہمیشہ سے ان ہی کے نصیب میں ہے جو بے سوچے سمجھے کوہ ندا کے بلاوے پہ لپکے چلے جاتے ہیں اور دل خراشی ہم جیسوں کا نصیب جنہیں ایسی تصویریں سونے نہیںدیتیں۔ ایک عجیب سا احساس جرم ہے جس میں میں مبتلا ہوں۔مجھے غربت پہ اعتراض ہے نہ غریبانہ حلیے پر۔مجھے اس تضاد پہ اعتراض ہے جو فحش ہے اور دن بدن فحش ہوتا جارہا ہے۔یہ صرف مولانا کے دھرنے کی کہانی نہیں ہے۔یہ بلاول کے اُچ شریف اور لاڑکانہ کے جلسے کی کہانی بھی ہے۔یہ عمران خان کے سوات اور مینگورہ کے جلسے کی کہانی بھی ہے۔عمران خان کو بہرحال یہ فوقیت حاصل ہے کہ ان کے کارکنان ایک عرصے تک بہتر مالی حالات کی نسبت سے اشرافیہ سے تعلق رکھنے کی پھبتی سہتے رہے۔کیا اسی میں یہ رمز بھی پوشیدہ نہیں کہ وہ جنہیں زندگی کی بہتر سہولیات حاصل ہیں ، ان لوگوں کی خاطر گھروں سے نکلے تھے جن کے لئے لفظ سہولت ایک عیاشی ہے۔ صورتحال لیکن بدل چکی ہے۔ عمران خان اقتدار میں ہیں اور تمام پھٹی ایڑیاں اور ٹوٹی چپلیں اب ان کی ذمہ داری ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ غربت انسان کا مسئلہ نہیں رہا۔ شرف انسانی اس کا مسئلہ ہے اور میرے لئے اس کی اہمیت بے حدہے۔ اتنی کہ اسے دو وقت کی روٹی پہ فوقیت دی جاسکتی ہے۔کئی برس ہوتے ہیں جب اشرافیہ کی بستی میں جہاں میری رہائش ہے ، ملتان کی ایک حسین و جمیل ملکانی سے ملاقات ہوئی۔کیا دمکتا چہرہ تھا جسے زیور و آرائش کی چنداں حاجت نہ تھی لیکن ہاتھوں میں کہنیوں تک سونے کی چوڑیوں نے آگ لگا رکھی تھی۔حسب رواج ان کی مشقتی نوعمر لڑکی مناسب سے حلیے میں ہمراہ تھی۔ہم لان کی بینچ پہ بیٹھے تو وہ ساتھ کھڑی رہی۔اسے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب ہم بے تکلفی سے گھاس پہ بیٹھے تو وہ تب بھی ساتھ کھڑی رہی کیونکہ زندہ حالت میں اسے زمین کے نیچے جانے کی اجازت نہیں تھی۔میں نے اصرار کیا تو وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے کھڑی رہی۔پھر مجھ سے بیٹھا نہیں گیا۔یہ مزارع ملازم کمی کمین یا جو کچھ بھی یہ کہلاتے ہیں ، انہیں کھانے پینے اور کپڑے لتوں کی کمی نہیں ہوتی۔انہیں عزت نفس اور شرف انسانی جیسی اصطلاحوں کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔ یہ پیدا اس لئے ہوئے ہیں کہ ہماری رونقیں بڑھائیں،ہمارے کام کاج کریں اور تذلیل کو روکن کے طور پہ قبول کرلیں۔ایسے میں جو جتنا ذلیل ہونے کا حوصلہ رکھے اتنا ہی مالکوں کے نزدیک کامیاب ہے۔ اس طرح اپنی محروم آبادی کے ایک بہت بڑے طبقے کو ہم نے اس احساس سے ہی محروم کردیا ہے جسے عزت نفس کہتے ہیں۔ یہ فضول سی چیز ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ شاید کبھی وہ دن آئے جب محروم طبقات بھوک سے نہیں ایک فقرے کہ ان کو روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھالیتے سے برافروختہ ہوکر اشرافیہ کو چوراہوں پہ لٹکائیں اور ان کا معیار بس یہ ہو کہ کس کے کالر اور کف سفید اور ہتھیلیاں نرم اور ملائم ہیں۔اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے اور ہم وہ وقت آنے ہی کیوں دیں کہ انہیں اپنی تذلیل کا شعور ہو، کیا ہمیں ہوش کے ناخن نہیں لینے چاہییں۔ یورپ نے جنگوں سے ہاتھ پیر سمیٹے اور ایک اہم سبق حاصل کیا۔ اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے مساوی اقدامات پہ مکمل یکسوئی۔ جاپان نے جنگ عظیم کے خاکستر سے نئی جلا حاصل کی اوراپنی قوم کو بے مثال اخلاقیات اور زندگی کی بنیادی سہولیات کی یکساں فراہمی کو یقینی بنایا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں اپنی جگہ لیکن اپنی عوام کو انصاف، تعلیم، صحت اور جان و مال کی حفاظت کی یکساں سہولت بجائے خود ایک کارنامہ ہے۔جب آپ اپنی عوام کو بنیادی سہولیات سے بہرہ مند کردیتے ہیں اور اپنی معیشت کا بوجھ ان پہ کم سے کم ڈالتے ہیں تو انہیں وہ اطمینان حاصل ہوتا ہے جس کی بنیاد پہ حکومتیں عالمی بساط پہ اپنی چالیں یکسوئی کے ساتھ چلنے کے قابل ہوتی ہیں۔ عوام کو ان کے حقوق کا شعور دینا ہی بڑے حوصلے کا کام ہوتا ہے کیونکہ اس سے پیچھے ہٹنا حکومتوں کے لئے آسان نہیں ہوتا اور عوام ایک اوباما ہیلتھ میں ہی کٹوتی پہ ہی شور مچا دیتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی نفسیات اورمجبوریاں ہیں۔لبرل مارکیٹ اتنی لبرل کبھی نہیں ہوتی کہ وہ چھوٹی معیشتوں کو بڑھوتری کے یکساں مواقع فراہم کرے۔یہ طاقتور ترین کی بقا کا اصول ہے جہاں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلتی جاتی ہیں۔ خود ان ہی سرمایہ دار ملکوں کے اندر مراعات یافتہ اور محروم طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ مشرف بہ سرمایہ کمیونسٹ چین اس کی اعلی مثال ہے جہاں زرعی اور دیہی ملک غربت کی انتہائوں کو چھو رہا ہے تو دوسری طرف چین عالمی معیشت پہ چھایا ہوا ہے۔ اس کے باوجود چین نے چھ برسوں میں اپنی تراسی ملین آبادی کو غربت کے شکنجے سے نکالا ہے۔ چین کی جی ڈی پی سمیت تمام اعلی معاشی اشاریے ایک طرف رکھئے اور اس نو عمر لڑکی کی بھوک کا تصور کیجیے جسے گزر اوقات کے لئے دن بھر میں صرف چند یوآن ملتے ہیں۔جب تک بے مثاؒل معاشی ترقی ایک ایک بھوکے کا شکم نہیں بھردیتی اس کا ذکر اسٹیٹ بینک اور اساطیری داستانوں میں ہونا چاہئے۔اگر آپ کے اعلی اشاریئے بھی مثبت نہیں ہیں لیکن عوام کو یہ اطمینان حاصل ہے کہ کنٹینر پہ شعلے برساتا ان کا لیڈر بھی ان کے ساتھ فاقے کرتا ہے تب بھی صورتحال اطمینان بخش ہے۔ کیا ہم نے ٹوٹی چپلوں کو وہ شعور و اطمینان دیا ہے جنہوں نے غالبا ًزندگی میں پہلی بار وفاقی دارالحکومت دیکھا ، سڑکیں دیکھیں ور وہ انسانی بچے دیکھے جن کی ایڑیاں پھٹی ہوئی نہیں ہیں اور جن کے پیروں میں سالم جوتے ہیں۔