پاکستان کی سیاست ان دنوں مختلف بیانیوں کے اردگرد گھوم رہی ہے،اشرافیہ کا بیانیہ، ریاست کا بیانیہ،پاکستان سے متعلق ٹرمپ مودی بیانیہ،معزول وزیر اعظم نواز شریف کا بیانیہ۔ان مختلف بیانیوںسے سیاسی پارہ بہت اوپر چلا گیا ہے۔مقدمات اور سیاسی تاریکیوں میں گھرے تاحیات نااہل میاں نواز شریف کے تازہ دم بیانیے نے پوری دنیا میں اودھم مچا دیا ہے اوریہ محض اتفاق نہیں ،سب کچھ لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے،کیونکہ اس بیانیے سے ٹرمپ مودی بیانیے کو تقویت ملی ہے،ایک ایسے شخص کی طرف سے ممبئی حملے سے متعلق متنازعہ بیان اوراس کی ٹائمنگ بہت معنی خیز ہے جس شخص نے تین بار ریاست سے وفاداری اور رازداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، اس کی طرف سے اس طرح کے بیانیے نے عوام کے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔اس بیانیے پر کاتب تقدیر کے ہاتھ بھی لرز اٹھے ہوں گے کہ جس نے اس شخص کی قسمت میںتین بار اس ملک کی وزارت عظمیٰ لکھ ڈالی اور آج وہی شخص اپنی ہی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے،لمحہ فکریہ ہے کہ تاریخ نے نوازشریف کو شیخ مجیب الرحمٰن جیسے ریاست سے برہم رہنمائوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جو شکنجے میں پائوںپھنسنے پر ریاست سے بھائو تائو کررہا ہے۔جون ایلیا بھائی کا ایک شعر ہے کہ ’’لائے تھے رات اس کی خبر قاصدان دل..... دل میں اٹھا وہ شور کہ خبر اس میں گم ہوئی‘‘خدشہ ہے کہ رنگے ہاتھوںپکڑا جانے والاچور بیانیوں کے اس شور میںہاتھ چھڑا کر بھاگ نہ جائے، اب بھید کھلنے کے بعد اس کے فرارکاجوازاصولی طورپر ممکن تو نہیں ہونا چاہئے لیکن جب امریکا اور بھارت کسی کے خلاف ہوں تو اس کا جان کی امان پانا ممکن نہیں ہوتا اور اگر یہ دونوں کسی کی پشت پر ہوں تواس کا بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف ہو سکتا ہے۔ویسے بھی اس ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے،اس کی تازہ مثالیں موجود ہیں،ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف جیسے قاتل دیت اور سفارتی استثنیٰ کی آڑ لے کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں توکوئی اندر کا بھیدی بھی کسی این آر او کے نتیجے میں اچانک باہرجاسکتاہے جبکہ وہ ماضی میں اس قسم کا تجربہ بھی رکھتا ہو ۔ 

 محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی میں پیپلزپارٹی مخالف حلقے اشرافیہ کی شہ پر اس کے لاڈلے نوازشریف کوفوقیت دینے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیا کرتے تھے کہ بڑی برائی سے چھوٹی برائی ٹھیک ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ اشرافیہ مخالف سیاسی حلقے بھی اس پروپیگنڈے کے جال میں پھنس گئے۔ بھٹو صاحب کو راہ سے ہٹانے کے باوجود بھی اشرافیہ کا غصہ ماند نہیں پڑا تھا،پیپلزپارٹی کودیوار سے لگانے اوراس کا سیاسی مستقبل تاریک کرنے کے لئے تنکوں کوجمع کرکے پیپلزپارٹی کے طوفان کے آگے بند باندھے جارہے تھے،اس وقت پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈے کا یہ عالم تھا کہ بی بی شہید کو سیاست میں بڑی برائی قراردیا جارہا تھا۔اشرافیہ کہیئے یا جنرل ضیاالحق، بھٹوخاندان کی سیاسی طاقت سے اس قدر خائف تھا کہ اس نے اس سیاسی

 عفریت سے پیچھا چھڑانے کے لئے کئی نادر شاہی نسخوں پر کام شروع کر رکھا تھا ،ان میں ایک مجرب نسخہ تو یہی تھا کہ عوام کے دلوں میں دھڑکنے والے سیاسی رہنمائوں سے گلوخلاصی کر اکے خلاسے کوئی نیا چہرہ اتاراجائے اور اسے فرشتہ بنا کرعوام پر مسلط کردیا جائے۔یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیربھٹوجیسی نابغہ روزگارسیاسی شخصیات کے متبادل کے طور پر ایک اوسط درجے کے کاروباری شخص کو آگے لانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ مشہورتھا کہ جنرل ضیاالحق ایک جہاندیدہ انسان ہیںلیکن وہ شریفوںکو پرکھنے میں کلی طور پر ناکام رہے،وہ خود کو عقل کل سمجھتے تھے لیکن ان سے ایک ایسی لغزش سرزد ہوئی جس کا خمیازہ آج تیس پینتیس سال بعد اشرافیہ کو ہی نہیں ریاست کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔جنرل ضیاالحق نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعدملک کو ایک دردناک مارشل لا کی طرف دھکیل دیا،80 کی دہائی میں جب پیپلزپارٹی کی قیادت ملک سے باہردربدر تھی،آمریت کا جن قابو سے باہر ہوگیا، بحالی جمہوریت کی تحریک میں شامل افراد کی بستیوں کو ٹینکوں سے روندا جانے لگا اورملک میں سیاسی کارکنوں، دانشوروں، صحافیوں اورجمہوریت پسندوں کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جانے لگے، ایسے عالم میں میاں نوازشریف کواقتدار کے پالنے میں بٹھا کر جیوے جیوے پاکستان کی لوریاں سنائی اورسکھائی جا رہی تھیں۔پاکستانی اشرافیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے خدمت گاروں کونوازنے اور دشمن کو ٹھکانے لگانے میں آخری حدوں تک چلی جاتی ہے،بدقسمتی سے اسی خودغرضانہ سوچ نے شریفوں اور چوہدریوں جیسے سیاسی بونوں کو ملک پر مسلط کیا اور اسی سوچ نے چار منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان،ذوالفقار علی بھٹو،محمدخان جونیجواور محترمہ بے نظیر بھٹوہم سے چھین لئے۔کوتاہ اندیش آمروں نے اپنے ذاتی ایجنڈوں کی تکمیل میں کبھی بھی قومی سیاست کے لئے درکار سیاسی ویژن کے تقاضوںکو دھیان میں نہیں رکھا جس کا بالآخر نقصان عوام اور ریاست کو اٹھانا پڑتا ہے۔یہ اس ملک کی تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ جنرل ضیاالحق کی آمریت میں بھٹو دشمنی میںایک ایسے غیر سیاسی خاندان کو پروان چڑھایا گیا جس کی پہلی ترجیح ملکی مفادات نہیں بلکہ ذاتی کاروبارتھا۔ اس خاندان کوبھٹو دشمنی میں اتنا فری ہینڈ دیا گیا کہ اشرافیہ کی گود میں پلنے والا یہ خاندان آج اتنا طاقت ور ہو گیا ہے کہ اپنے ہی محسنوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے ، مجھے سرائیکی زبان کے ہردلعزیز شاعر شاکر شجاع آبادی کے دومصرعے یاد آرہے ہیں جو اس خاندان کی سیاست پر حرف بحرف صادق آتے ہیں،’’ساڈا گھر اے شاکر شیشے دا.....ارمان لوہار دے ہتھ آگئے‘‘(شاکر ہماراگھر شیشے کا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ لوہاروں کے ہاتھ آگیا ہے)تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری اشرافیہ اپنے مہرے چننے میں ہمیشہ مردم نا شناسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

سرائیکی وسیب میں ایک روایت بہت مشہور ہے کہ ایک کامل بزرگ سفر میں تھے اور ایک درخت کی چھائوں میں چارپائی پراستراحت فرما رہے تھے لیکن چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ان کے لئے آرام کرنا مشکل ہو رہا تھا، وہ چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور ہاتھ کے اشارے سے کہا:’’اوشااللہ مرو، چپ تھیوو‘‘( اری او چڑیو ، شااللہ مر جائو، چپ ہو جائو)روایت ہے کہ سب کی سب چڑیاں تڑپ کر درخت سے گریں اور مر گئیں۔باباچارپائی سے اترے ،ایک ایک چڑیا کے قریب جا کر لاٹھی سے چھوتے گئے اورایک ایک کر کے چڑیاں پھدک کراڑتی چلی گئیں،وہ چارپائی پر بیٹھے اورچارپائی تخت دائود کی طرح اس گائوں سے

 اگلے گائوں کی طرف چل پڑی، اگلے گائوں پہنچی تو یہ حیرت ناک منظر دیکھ کر کہ چارپائی اڑ رہی ہے اور اس پر ایک بابا بیٹھا ہے، گائوں کے چند پالتوکتے چارپائی کی طرف لپکے تو بابا نے ابھی ان کی طرف ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کہیں سے ایک بڑھیا کی آواز آئی:’’او بزرگا!ہتھ جھل ،او چڑیاں رے سینکیاں ہن، ایہہ پالتوتے وارثیں والے ہن‘‘(ارے او بابا!ہاتھ یہیں روک لو ، وہ چڑیاں لاوارث تھیں ،یہ پالتو اوروارثوں والے ہیں) ۔بھٹو لاوارث تھا،امریکااوراشرافیہ کی مخالفت کر کے پھندے پر جھول گیا،اشرافیہ کی دریافت نواز شریف ایک سیاسی قوت بننے کے بعداشرافیہ کو آنکھیں دکھا رہاہے اور ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے بھی سرخرو ہے۔حد ادب .....پاکستان کی اشرافیہ نے بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے بارے میں ہمیشہ غلط اندازے قائم کئے،بھٹو خاندن کے افراد سیاسی عزائم رکھنے والے فوجی جرنیلوں کے خلاف ضرور تھے لیکن افواج پاکستان کے خلاف کبھی نہیں رہے،وہ صرف اشرافیہ مخالف تھے،بدقسمتی سے بھٹو خاندان کے بیانیے کو اس ملک میںکبھی صحیح طور پرسمجھاہی نہیں گیا بلکہ انہیں ریاست دشمن پیش کر کے راستے سے ہٹا دیا گیا،دوسری طرف تیس پینتیس برسوں میں اقتدارکے مزے اوردولت لوٹنے والے شریف خاندان کے عزائم طشت ازبام ہو گئے ہیں اور وہ اپنا اقتدار اور لوٹ کھسوٹ سے جمع کی گئی دولت بچانے کے لئے ہاتھ پائوں ماررہے ہیں اور عالمی قوتوں کے بیانیے کو تقویت پہنچا کر ایک نئے این آراو کی راہ ہموار کررہے ہیںاور کچھ بعید نہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں اور ایک روزپہلے کی طرح معصوم اور مظلوم بن کر اس ملک سے راتوں رات چلتے بنیں ۔