سید ابوالاعلیٰ مودودی کی صحت بگڑنے لگی تھی‘ گزرے سن و سال اور عمر بھر کی مشقت نے گہرا اثر چھوڑا‘ مگر ان کا چہرہ ہمیشہ سے مطمئن‘ پرکشش اور جوانی کی بہار سا تھا‘ ان سے ملنے اور دیکھنے والوں کو تھکن‘ بیماری اضمحلال کا کبھی شائبہ تک نہ گزرتا۔ کارکن ان کی صحت و تندرستی ‘طمانیت پر رشک کرتے‘ مگر اندر ہی اندر مختلف عوارض کا گھن کھائے جاتا‘ اب انہیں گھر سے نکلنے اور کہیں آنے جانے میں تامل تھا۔ ایسے میں ایک دن رانا نذر الرحمن سید صاحب کو اپنے ہاں مدعو کرنا چاہتے تھے۔ مولانا کے عذر اور تدبذب پر بولے‘ مولانا آپ کے اعزاز میں دعوت تو ضرور ہو گی مگر اب یہ دعوت میرے گھر سمن آباد کی بجائے آپ کے ہاں‘جماعت اسلامی کے مرکز اچھرہ میں منعقد کی جائے گی ۔چنانچہ ٹینٹ لگے‘ دیگیں آئیں‘ باورچی حاضر ہوئے‘ اشتہا انگیز کھانے تیار ہو کر دسترخوان پر سجا دیے گئے‘ مہمانوں کی آمد ہوئی۔ آخر میں مگر عین وقت پر مولانا بھی دستر خوان پر موجود تھے۔آج کے میزبان رانا نذر الرحمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا’’مجھے وہ حضرات بہت اچھے لگتے ہیں‘جو میرے ہی گھر پر مجھے پرتکلف کھانے پر مدعو کریں‘‘۔ یہ بھی ایک ایسی ہی دعوت تھی جس کا ذکر کرنے چلا ہوں‘رات کے کھانے کی تقریب حفیظ اللہ خان نیازی نے برپا کی تھی‘لاہور‘زمان پارک میں عمران خاں کے گھر اور عمران خان کے اعزاز میں مینار پاکستان کے زیر سایہ ۔30اکتوبر 2011ء پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے تحریک انصاف کے تاریخی جلسہ عام کے بعد۔ درست طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ دراصل یہ شاندار تقریب کس کے اعزاز میں تھی‘ عمران خان سمیت بعض مہمانوں کو گمان تھا کہ یہ لاہور کے کامیاب جلسہ کے بعد عمران خاں کے لئے منعقد ہوئی۔ہمارے بھائی میاں مشتاق امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔ان کی آمد پر ہمیشہ ایک سے زیادہ مرتبہ حفیظ اللہ خاں پر تکلف دعوتیں دیا کرتے ہیں‘ہمارا تاثر یہی تھا کہ یہ امریکہ سے آئے مہمان کا اعزاز ہے۔ایسا ہی ایک تاثر ہارون الرشید کے لئے بھی تھا‘یہ خالص حفیظ اللہ کا ’’سیکرٹ‘‘ ہے کہ ایک تقریب کا اعزاز بیک وقت درجن بھرمہمانوں کے نام ہو سکتا ہے‘ ہمیشہ کی طرح شاندار انواع و اقسام کے مزیدار کھانے‘جس کے لئے تازہ مچھلی چشمہ بیراج سے اور دیسی مرغیاں میانوالی سے منگوائی جاتی ہیں تاکہ مچھلی کے دریائی اور مرغیوں کے دیسی ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو۔ عمران خان کا بنگالی باورچی بطور خاص مچھلی کو ایسے ذائقوں میں بدلتا ہے کہ نوابانِ اودھ کا دستر خواں بھی شرما جائے۔پرتکلف اور پرجوش تقریب کے بعد ہارون الرشید نے حفیظ اللہ کو مژدہ سنایا کہ عمران کی حکومت بس آیا ہی چاہتی ہے‘ کابینہ کی تشکیل میں پہلا نام حفیظ اللہ خاں نیازی کا ہو گا۔انہیں وزیر خوراک بنایا جائے گا اور امیرِ مطبخ بھی‘ عمران خاں کے تمتاتے چہرے پر پرجوش مسکراہٹ تھی‘ہارون الرشید کی تجویز پر انہوں نے مثبت اشارہ دیا تو حفیظ اللہ خاں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور بولے‘جناب ہارون الرشید اور تحریک انصاف پوری کی پوری مجھے زبردستی شہید بنانے کی کوشش نہ کریں‘ آپ عمران خاں کو پوری طرح سمجھتے نہیں مگر میں جانتا ہوں‘ اپنے چچیرے بھائی اور برادر نسبتی کو پیدائش کے دن سے آج تک‘سکول کے پہلے دن‘ یونیورسٹی کے بعد سے کرکٹ کے انجام تک‘ شوکت خانم ہسپتال کا آغاز‘تحریک انصاف کی بنیاد اور 30اکتوبر کے جلسہ عام تک ‘ ہر دن‘ ہر لمحہ میری سماعت و بصارت کے رستے میرے دل و دماغ پر نقش ہے‘ میں یہ بھی جانتا ہوں جب عمران خاں وزیر اعظم بنے گا تو جو وزیر یا عہدیدار اس کے سب سے قریب‘راز دار اور چہیتا ہو گا وہی خطرے میں رہے گا‘اس چہیتے کی کمزوریوں پر کڑی نگرانی رہے گی‘جونہی وہ کسی لغزش یا کمزوری کا شکار ہوا تو اسے نشان عبرت بنایا جائے گا‘پوری کابینہ‘عہدیدار اور پارٹی کی قیادت کو سیدھا رکھنے‘خوف دلانے کے لئے جس طرح کسان ایک کوے کو مار کر سامنے لٹکا دیتے ہیں‘اس کی لاش لٹکی دیکھ کر پہلے پہل سینکڑوں‘ ہزاروں کوے جمع ہو کر شور مچاتے ہوئے اڑ جاتے ہیں اور پھر اس راہ سے گزرتے تک نہیں کہ کہیں ان کی بھی یہی حالت نہ بنا دی جائے‘اسی طرح سب سے قریبی اور نک چڑھا وزیر ہر وقت اس لٹکے ہوئے کوے کے انجام سے دوچار ہونے کا منتظر رہے گا اس لئے آپ یقین کیجیے‘ میں زبردستی کا شہید اور عبرت کا نشان بننے کے لئے دستیاب نہیں ہونگا۔ادھر عمران خاں نے حلف لیا ادھر حفیظ اللہ کی پاکستان سے خود اختیاری‘ جلاوطنی کا آغاز ہو جائے گا۔اس کے ساتھ ہی عمران خاں کی کپتانی میں ماجد خان(خالہ زاد بھائی اور مایہ ناز کرکٹر) کا کرکٹ ٹیم سے فارغ خطی کا حوالہ بھی دیا۔حفیظ اللہ نیازی‘ عمران خان کی حکومت کے آغاز سے پہلے ہی دوستوں کی صف سے نکل کر سامنے کی صف میں کھڑا ہو کر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا۔کل کے اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ عمران خاں کا یہ بیان چھپا ہے کہ ’’سیاست میں جہانگیر ترین میرا واحد دوست تھا‘‘ یہ پوری داستان زبان حال سے کہتی ہے کہ عمران خاں جس کو بہت عزیز رکھے اسے چاہیے کہ اس کے دور اقتدار میں‘ اقتدار کی حصہ داری سے دور رہے۔ اگر اقتدار کا لپکا ایسا ہی ہو کہ اس کے بغیر رہ نہ سکے تو پھر اپنی کمزوریوں اور لغزشوں سے ہمہ وقت ہوشیار رہے۔ ہم دیہاتی جانتے ہیں کہ کوے بے سبب مار کے نشان عبرت نہیں بنائے جاتے‘ گستاخ کوے جب کسان کے منّے کے ہاتھ سے نوالہ چھین کر اڑ جائے اور بچہ اچانک گرنے والی آفت پر واویلا کرے تو کسان اور اس کی بیوی قہقہہ لگا کر بچے کو دلاسہ دیتے ہوئے روٹی کا دوسرا ٹکڑا اس ہاتھ تھما دیتے ہیں ،کوے سے تعرض نہیں کرتے۔اس وقت بھی کوے کی گستاخی پر خاموش رہتے ہیں جب کوا تپتی دوپہر درخت کے نیچے لیٹے مہمان کے عین اوپر کی شاخ پر بیٹھ کر اپنی بیٹ سے مہمان کے چہرہ کو آلودہ کر دے‘ اس پر بھی کسان اور مہمان دونوں ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کرتے لیکن جب مرغی کے بچوں کی لمبی ڈار ایک ایک کر کے کوئوں کی غارتگری کا شکار بن جائے تو پھر مجبوراً کوے شکار کئے جاتے ہیں کہ مرغی بیچاری بالکل اکیلی نہ رہ جائے۔ ماجد خاں نے کھیل میں اپنی فٹنس کھو دی اور مسلسل ناکام رہنے لگے تو مجبوراً انہیں رخصت ہونا ہی تھا۔ جہانگیر ترین اگرچہ اپنی بعض بے قاعدگیوں کے سبب عدالت کے ہاتھوں سیاست کے لئے نااہل قرار پائے مگر عمران خاں کو اپنے دوست سے گہری ہمدردی تھی اور انہیں اس ہمدردی کے سبب پارٹی میں سات خون معاف کئے گئے۔ جسٹس وجیہہ الدین ‘ حامد خاں‘ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی جیسے بھاری بھرکم کے لئے بھی کوئی آواز نہ اٹھی‘ مگر انہیں صرف سات خون معاف تھے‘ بس وہ سات ہی تھے‘ پھر سیاسی حریفوں نے اس وقت رپٹ لکھوائی جب ہونہار علی ترین نے غالباً تین ارب روپے‘اس ایمنسٹی سکیم میں کالے دھن سے سفید کئے جس پر عمران اور جہانگیر ترین بڑی تند اور تیز تنقید کر چکے تھے۔ اس کے بعد وقت کا پہیہ الٹا گھومنے لگا اور پھر تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘نوبت باایں جا رسید کہ جن کے درمیان ہوائوں کا گزر نہ تھا‘ ان کی عرضداشت لے کر چالیس ممبران اسمبلی کو جانا پڑا‘ بس رہے نام اللہ کا۔